May 5, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 22

وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلاَّ إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا

اور جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ، جب اُنہوں نے (دُشمن کے) لشکروں کو دیکھا تھا تو اُنہوں نے یہ کہا تھا کہ : ’’ یہ وہی بات ہے جس کا وعدہ اﷲ اور اُس کے رسول نے ہم سے کیا تھا، اور اﷲ اور اُس کے رسول نے سچ کہا تھا۔‘‘ اور اس واقعے نے اُن کے ایمان اور تابع داری کے جذبے میں اور اضافہ کر دیا تھا

آیت ۲۲    وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ: ’’اور جب اہل ِایمان نے دیکھا ان لشکروں کو‘‘

        قَالُوْا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ: ’’تو انہوں نے کہا کہ یہی تو ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا تھا اللہ اور اُس کے رسولؐ نے، اور بالکل سچ فرمایا تھا اللہ اور اُس کے رسولؐ نے۔‘‘

        ان کے دلوں نے فوراً ہی گواہی دے دی کہ یہ وہی صورت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بہت پہلے ہمیں ان الفاظ میں متنبہ ّکر دیا تھا: (وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ) (البقرۃ:۱۵۵) ’’اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے، اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے۔‘‘ بلکہ اللہ اور اس کے رسول  نے تو ہمیں یہاں تک خبردار کر دیا تھا: (لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ  وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا) (آل عمران:۱۸۶) ’’(مسلمانو یاد رکھو!) تمہیں لازماً آزمایا جائے گا تمہارے مالوں میں بھی اور تمہاری جانوں میں بھی، اور تمہیں لازماً سننا پڑیں گی بڑی تکلیف دہ باتیں، ان لوگوں سے بھی جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور مشرکین سے بھی۔‘‘

        یہاں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ محاصرے کی جس صورتِ حال پر منافقین نے مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا) کے الفاظ میں تبصرہ کیا تھا اسی صورت حال پرمؤمنین کا تبصرہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ یعنی ایک ہی صورتِ حال میں دونوں فریقوں کا رد عمل مختلف بلکہ متضاد تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی انسان کے عمل اور اس کے رویے ّکا انحصار اس کے دل کی کیفیت پر ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۶ میں قرآن کریم کے حوالے سے یوں واضح کیا گیا ہے: (یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًالا وَّیَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا) یعنی اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا کرتا ہے۔

        وَمَا زَادَہُمْ اِلَّآ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا: ’’اوراس (واقعہ) نے ان میں کسی بھی شے کا اضافہ نہیں کیا مگر ایمان اور فرمانبرداری کا۔‘‘

        یعنی یہ آزمائش مسلمانوں کے ایمان اور جذبۂ تسلیم و رضا میں مزید اضافہ کر گئی۔ محاصرے کے پورے عرصے کے دوران میں ہر قسم کی مصیبت اور پریشانی کے سامنے وہ ع ’’سر ِتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے‘‘ کے نعرئہ مستانہ کی عملی تصویر بنے رہے۔ گویا مؤمن تو ہر حال میں خوش اور مطمئن رہتا ہے۔ اللہ کے راستے میں اس کی کوششیں دنیا میں ہی بار آور ہوں یا اس جدوجہد میں اس کی جان چلی جائے، وہ دونوں صورتوں میں سرخرو ٹھہرتا ہے۔ سورۃ التوبہ کی آیت: ۵۲ میں ان دونوں صورتوں کو اَلْحُسْنَـیَیْن (دو بھلائیاں) قرار دیا گیا ہے: (قُلْ ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلآَّ اِحْدَی الْحُسْنَـیَیْنِ) ’’(اے مسلمانو! ان منافقین سے) کہو کہ تم ہمارے بارے میں کس شے کا انتظار کر سکتے ہو؟ سوائے دو بھلائیوں میں سے ایک کے!‘‘ یعنی تبوک کی اس مہم کے دوران میں جو صورت بھی ہمارے درپیش ہو ہمارے لیے اس میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اگر فتح یاب ہو کر لوٹے تو دنیا کی کامیابیاں پائیں گے اور اگر شہید ہو گئے تو جنت کی ابدی نعمتوں سے نوازے جائیں گے۔ (سورۃ التوبہ ۹ ہجری میں سورۃ الاحزاب کے چار سال بعد نازل ہوئی۔ )

        یہ راستہ دراصل عشق کا راستہ ہے اور اس راستے کے مسافروں کی نظر ظاہری مفاد کے بجائے اپنے محبوب کی رضا پر ہوتی ہے۔ حالات موافق و سازگار ہوں یا مخدوش و نا مساعد، وہ اس کی پروا کیے بغیر اپنے محبوب کی خوشنودی کے لیے سر گرمِ عمل رہتے ہیں۔ بقول غالب: ؎

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے

بے نیازی تری عادت ہی سہی!

UP
X
<>