May 5, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 27

وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَّمْ تَطَؤُوهَا وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا

اور اﷲ نے تمہیں اُن کی زمین کا، اُن کے گھروں کا اور اُن کی دولت کا وارث بنادیا، اور ایک ایسی زمین کا بھی جس تک ابھی تمہارے قدم نہیں پہنچے۔ اور اﷲ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے

آیت ۲۷    وَاَوْرَثَکُمْ اَرْضَہُمْ وَدِیَارَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ: ’’اور اُس نے تمہیں وارث بنا دیا ان کی زمینوں، ان کے گھروں اور ان کے اموال کا‘‘

        وَاَرْضًا لَّمْ تَطَؤہَا: ’’اور اُس زمین کا بھی جس پر ابھی تم نے قدم نہیں رکھے۔‘‘

        اس فقرے میں ان تمام فتوحات کی طرف اشارہ موجود ہے جو بعد میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔ اس لحاظ سے غزوئہ احزاب حضور  کی جدوجہد کے سفر میں ایک فیصلہ کن موڑ (turning point) ثابت ہوا۔ اس سلسلے میں حضور  نے اہل ایمان کو خوشخبری بھی سنا دی تھی کہ: ((لَنْ تَغْزُوْکُمْ قُرَیْشٌ بَعْدَ عَامِکُمْ ھٰذَا وَلٰـکِنَّـکُمْ تَغْزُوْنَھُمْ)) یعنی ’’ اس سال کے بعد قریش کبھی بھی تم پر حملہ آور نہیں ہو سکیں گے، بلکہ آئندہ تم ان پر چڑھائی کرو گے۔‘‘

         حضور  کے اس فرمان کی صداقت اگلے ہی سال یعنی ۶ ہجری میں اُس وقت ظاہر ہو گئی جب آپؐ چودہ سو صحابہؓ کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے مکہ روانہ ہوئے۔ اس سفر میں مسلمانوں نے احرام باندھ رکھے تھے۔ تلواروں کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور ہتھیار بھی نہیں تھا اور تلوار یں بھی نیاموں میں تھیں۔ حضور  اپنے قافلے کے ساتھ جب مکہ کے قریب پہنچے تو یہ صورت حال گویا مشرکین مکہ کے گلے میں ایک ایسی ہڈی کی طرح پھنس کر رہ گئی جسے نہ وہ اُگل سکتے تھے اور نہ نگل سکتے تھے۔ ایک طرف ان کی صدیوں پرانی روایات تھیں جن کے مطابق کسی بد ترین دشمن کو بھی حج یا عمرے سے روکا نہیں جا سکتا تھا اور دوسری طرف ان کی انا تھی جس کے تحت وہ مسلمانوں کو کسی قیمت پر بھی مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ ان کے لیے یہ دونوں صورتیں ہی مشکل تھیں ۔ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکیں تو کس جواز کے تحت روکیں اور اگر آنے کی اجازت دیں تو کس منہ سے ایسا کریں !

        اس صورتِ حال میں حضور  نے حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ کرنے کا حکم دیا اور حضرت عثمان کو حالات کا جائزہ لینے کے لیے مکہ بھیجا۔ حضرت عثمان کو مکہ میں کچھ زیادہ دیر رکنا پڑا تو مسلمان لشکر میں کسی طرح یہ افواہ پھیل گئی کہ مشرکین نے انہیں شہید کر دیا ہے۔ اس پر حضور  نے آپؓ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے صحابہؓ سے بیعت لینے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ چنانچہ موقع پر موجود تمام صحابہؓ نے آپ  کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے آخری دم تک لڑنے کا عہد کیا تھا۔ یہ بیعت علی الموت تھی اورتاریخ میں اسے ’’بیعت ِرضوان‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جب اس بیعت کی خبر مکہ پہنچی تو مشرکین کے چھکے ّچھوٹ گئے۔ انہوں نے سفارتی مہم کے ذریعے حضور  کو صلح کی پیش کش کی اور طویل مذاکرات کے بعدبالآخر فریقین کے مابین صلح حدیبیہ کا تاریخی معاہدہ طے پاگیا۔ اس معاہدہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفتح میں بایں الفاظ تبصرہ فرمایا: (اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا) ’’یقینا ہم نے آپ  کو فتح مبین عطا فرمائی ہے۔‘‘

        اس فرمانِ الٰہی کے اثرات و ثمرات فوری طور پر ہی ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ اگلے ہی سال ۷ ہجری میں مسلمانوں نے یہودیوں کا مضبوط گڑھ خیبر فتح کر لیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کی فتوحات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیااور بیس سال کے اندر اندر اسلامی سلطنت کی حدود تین براعظموں تک وسیع ہو گئیں۔ آیت زیر نظر میں انہی فتوحات کے بارے میں پیشین گوئی کی گئی ہے۔

        وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرًا: ’’اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ 

UP
X
<>