May 18, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 51

تُرْجِي مَن تَشَاء مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاء وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكَ ذَلِكَ أَدْنَى أَن تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا

ان بیویوں میں سے تم جس کی باری چاہو، ملتوی کردو، اور جس کو چاہو، اپنے پاس رکھو، اور جن کو تم نے الگ کر دیا ہو، اُن میں سے اگر کسی کو واپس بلانا چاہو تو اس میں بھی تمہارے لئے کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ اُن سب کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی، اور اُنہیں رنج نہیں ہوگا، اور تم اُنہیں جو کچھ دے دوگے، اُس پر وہ سب کی سب راضی رہیں گی۔ اور اﷲ اُن سب باتوں کو جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہیں ، اور اﷲ علم اور حلم کا مالک ہے

آیت ۵۱    تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْہُنَّ وَتُــْٔوِیْٓ اِلَیْکَ مَنْ تَشَآءُ: ’’آپؐ ان میں سے جس کو چاہیں پیچھے ہٹائیں اور جس کو چاہیں اپنے قریب جگہ دیں۔‘‘

        یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کو خصوصی اجازت دے دی گئی کہ آپؐ کے لیے تمام ازواجِ مطہرات کے درمیان مساوات کا برتاؤ اور برابری کا سلوک کرنا ضروری نہیں۔ آپؐ کو اجازت تھی کہ آپؐ چاہیں تو کسی زوجہ محترمہ کے پاس زیادہ دیر ٹھہریں اور چاہیں تو کسی کو نسبتاً کم وقت دیں۔

        وَمَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکَ: ’’اور جن کو آپؐ نے دو ر کر دیا تھا، ان میں سے کسی کو (دوبارہ قریب کرنا) چاہیں تو بھی آپؐ پر کوئی حرج نہیں۔‘‘

        ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُہُنَّ وَلَا یَحْزَنَّ وَیَرْضَیْنَ بِمَآ اٰتَیْتَہُنَّ کُلُّہُنَّ: ’’یہ زیادہ قریب ہے اس سے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور وہ سب کی سب راضی رہیں اس پر جو بھی آپ انہیں دیں۔‘‘

        یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آپؐ کی ازواج مطہراتl آپؐ کی طرف سے کسی چیز یا کسی سلوک کو اپنا حق نہ سمجھیں اور آپؐ انہیں جو کچھ بھی عطا فرمائیں اسے آپؐ کی عنایت سمجھتے ہوئے خوشی خوشی قبول کر لیں۔ اگرچہ اس حکم کے بعد حضور  پر ازواج کے مابین مساوات کا برتاؤ واجب نہیں رہا تھا مگر اس کے باوجود آپؐ ہمیشہ نان و نفقہ سمیت ایک ایک چیز میں ناپ تول کی حد تک سب کے ساتھ برابر کا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ تمام ازواج کے ہاں شب باشی کے لیے بھی آپؐ نے باری مقرر فرما رکھی تھی۔ اسی طرح جب آپؐ مدینہ میں ہوتے تو نمازِعصر کے بعد باری باری سب ازواج مطہراتl کے ہاں تشریف لے جاتے اور اس دوران وقت کی تقسیم میں مساوات کا خیال فرماتے۔ غرض ہر معاملے میں آپؐ بہت محتاط انداز میں عدل و مساوات کا اہتمام فرماتے اور اس کے باوجود فرمایا کرتے: ((اَللّٰھُمَّ ھٰذَا قَسْمِیْ فِیْمَا اَمْلِکُ فَلَا تَلُمْنِیْ فِیْمَا تَمْلِکُ وَلَا اَمْلِکُ)) ’’اے اللہ! جو چیزیں میرے اختیار میں ہیں ان میں تو میں نے برابر کی تقسیم کر دی ہے، لیکن جو میرے اختیار میں نہیں ہیں بلکہ تیرے اختیار میں ہیں ان کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا‘‘۔ یعنی ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان مساوات کے حوالے سے ظاہری چیزوں کی حد تک تو کوشش کی جا سکتی ہے مگر دل کے رجحان یا میلان کو برابر تقسیم کرنا انسان کے بس میں نہیں۔ اس حوالے سے سورۃ النساء میں بہت واضح حکم آ چکا ہے: (وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا) اور تمہارے لیے ممکن ہی نہیں کہ تم عورتوں کے درمیان انصاف کر سکو چاہے تم اس کے لیے کتنے ہی حریص بنو، لیکن ایسا نہ ہو کہ تم کسی ایک کی طرف پورے کے پورے جھک جاؤاور دوسری کومعلق کر کے چھوڑ دو۔ اور اگر تم اصلاح کر لو اور تقویٰ کی روش اختیار کروتو اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘

        وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَلِیْمًا: ’’اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا، بہت بردبار ہے۔‘‘ 

UP
X
<>