May 4, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 50

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللاَّتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاء اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالاتِكَ اللاَّتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

اے نبی ! ہم نے تمہارے لئے تمہاری وہ بیویاں حلال کر دی ہیں جن کو تم نے اُن کا مہر ادا کردیا ہے، نیز اﷲ نے غنیمت کا جو مال تمہیں عطا کیا ہے، اُس میں سے جو کنیزیں تمہاری ملکیت میں آچکی ہیں وہ بھی (تمہارے لئے حلال ہیں ) اور تمہاری وہ چچا کی بیٹیاں اور پھوپی کی بیٹیاں اور ماموں کی بیٹیاں اور خالاؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے، نیز کوئی مسلمان عورت جس نے مہر کے بغیر نبی کو اپنے آپ (سے نکاح کرنے) کی پیشکش کی ہو، بشرطیکہ نبی اُس سے نکاح کرنا چاہے۔ یہ سارے اَحکام خاص تمہارے لئے ہیں ، دُوسرے مومنوں کیلئے نہیں ۔ ہمیں وہ اَحکام خوب معلوم ہیں جو ہم نے اُن کی بیویوں اور کنیزوں کے بارے میں اُن پر عائد کئے ہیں ، (اور تمہیں ان سے مستثنیٰ کیا ہے) تاکہ تم پر کوئی تنگی نہ رہے، اور اﷲ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے

آیت ۵۰     یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ الّٰتِیْٓ اٰتَیْتَ اُجُوْرَہُنَّ: ’’اے نبی !ہم نے آپ کے لیے حلال ٹھہرایا ہے آپ کی ان تمام ازواج کو جن کے مہر آپ نے ادا کیے ہیں‘‘

        وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّآ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلَیْکَ:’’اور (ان کو بھی) جو آپؐ کی ملک یمین (باندیاں) ہیں، ان سے جو اللہ نے آپؐ کو بطورِ ’فے، عطا کیں‘‘

        جیسے مصر کے فرمانروا مقوقس نے حضرت ماریہ قبطیہk کو آپؐ کی خدمت میں بطور ہدیہ بھیجا تھا۔

        وَبَنٰتِ عَمِّکَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَبَنٰتِ خَالِکَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِکَ: ’’(اسی طرح آپؐ کو نکاح کرنا جائز ہے) اپنے چچا کی بیٹیوں سے اور اپنی پھوپھیوں کی بیٹیوں سے، اور اپنی ماموؤں کی بیٹیوں اور اپنی خالاؤں کی بیٹیوں سے‘‘

        الّٰتِیْ ہَاجَرْنَ مَعَکَ: ’’جنہوں نے آپؐ کے ساتھ ہجرت کی۔‘‘

        وَامْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ: ’’اور وہ مؤمن عورت بھی جو ہبہ کرے اپنا آپ نبیؐ کے لیے‘‘

        اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَہَا: ’’اگر نبیؐ اسے اپنے نکاح میں لانا چاہیں۔‘‘

        یعنی وہ مسلمان خاتون جو مہر کا تقاضا کیے بغیر خود کو آپؐ کی زوجیت کے لیے پیش کرے اور آپؐ اسے قبول فرمائیں۔

        خَالِصَۃً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ: ’’یہ (رعایت) خالص آپؐ کے لیے ہے، مؤمنین سے علیحدہ۔‘‘

        اس سلسلے میں نبی مکرم  کوعام قانون سے مستثنیٰ قرار دیا جا رہا ہے۔

        قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْہِمْ فِیْٓ اَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ : ’’ہمیں خوب معلوم ہے جو ہم نے ان (عام مسلمانوں) پر ان کی بیویوں اور ان کی باندیوں کے ضمن میں فرض کیا ہے‘‘

        ایک عام مسلمان ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویاں اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا۔ اسی طرح باندیوں کے بارے میں بھی ان پر طے شدہ قواعد و ضوابط کی پابندی لازم ہے۔

        لِکَیْلَا یَکُوْنَ عَلَیْکَ حَرَجٌ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا: ’’تا کہ آپؐ پر کوئی تنگی نہ رہے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘

        اس موضوع کے حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ حضور  کے متعدد نکاح کرنے میں بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کا عمل دخل تھا۔ مثلاً حضرت عائشہ اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہو گئیں اور اس کے بعد آپؓ ایک طویل مدت تک خواتین اُِمت کے لیے ایک معلمہ کا کردار ادا کرتی رہیں۔ اسی طرح حضور نے بہت سے ایسے نکاح بھی کیے جن کی وجہ سے متعلقہ قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار ہوئے اور اس طرح اسلامی حکومت او رریاست کو تقویت ملی۔ یہ مصلحتیں اس بات کی متقاضی تھیں کہ حضور  کے لیے نکاح کے معاملے میں کوئی تنگی باقی نہ رکھی جائے، تاکہ جو عظیم کام آپؐ کے سپرد کیا گیا تھا اس کی ضروریات کے لحاظ سے آپ جتنے نکاح کرنا چاہیں کر لیں۔ 

UP
X
<>