May 5, 2024

قرآن کریم > سبإ >sorah 34 ayat 19

فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ

اس پر وہ کہنے لگے کہ : ’’ ہمارے پروردگار ! ہمارے سفر کی منزلوں کے درمیان دور دور کے فاصلے پیدا کردے‘‘ اور یوں اُنہوں نے اپنی جانوں پر ستم ڈھایا، جس کے نتیجے میں ہم نے اُنہیں افسانہ ہی افسانہ بنادیا، اور اُنہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے بالکل تتر بتر کر دیا۔ یقینا اس واقعے میں ہر اُس شخص کیلئے بڑی نشانیاں ہیں جو صبر وشکر کا خوگر ہو

آیت ۱۹   فَقَالُوْا رَبَّـنَا بٰعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا: ’’تو انہوں نے کہا :اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفروں کے درمیان دوری پیدا کر دے‘‘

        ان کی یہ خواہش یا دُعا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور مہربانیوں کی نا قدری کی عبرت انگیز مثال ہے۔ گویا وہ سفر کے مذکورہ مثالی انتظامات سے اُکتا چکے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ ُپر امن اور پر سکون سفر کرتے کرتے تن آسانی اور سہل انگاری کا شکار ہو جائیں گے۔ انہیں زعم تھا کہ وہ بہادر اور مہم جو قسم کے لوگ ہیں اور ہر قسم کے خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے دعا کی کہ ان کے سفر لمبے ہو جائیں تاکہ سفر کے دوران انہیں مشکلات و خطرات کا سامنا ہو، جن کا وہ مردانہ وار مقابلہ کریں اور یوں انہیں مہم جوئی اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع ملے۔

        وَظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِیْثَ وَمَزَّقْنٰہُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ: ’’اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے انہیں کہانیاں بنا دیا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا۔‘‘

        اس زمانے میں یمن تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی نا شکریوں اور نا فرمانیوں کے سبب اس قوم کا ایسا نام و نشان مٹا کہ اب دنیا میں ان کی صرف داستانیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ قوم سبا پر سیلاب کے عذاب کا واقعہ بہت زیادہ پرانانہیں۔ حضور  کی ولادت سے تقریباً سوا سو سال قبل یعنی ۴۵۰ عیسوی کے لگ بھگ یہ واقعہ پیش آیا۔ بند ٹوٹنے کی وجہ سے یہ علاقہ مکمل طور پر تباہ ہو گیاتو زندہ بچ رہنے والے لوگ عراق اور عرب کے دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے۔ خود اوس اور خزرج کے قبائل کا تعلق بھی یمن سے تھا اور یہ لوگ اس علاقے کی تباہی کے بعد یمن سے یثرب میں آ کر آباد ہوئے تھے۔ قوم سبا کی تباہی کے بعد مذکورہ تجارتی شاہراہ پر قریش مکہ کی اجارہ داری قائم ہو گئی اور جس زمانے میں حضور  پر وحی کا آغاز ہوا اس زمانے میں قریش کے تجارتی قافلے جنوب میں یمن اور شمال میں شام و فلسطین کے درمیان آزادانہ سفر کرتے تھے۔

        اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ: ’’یقینا اس میں نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو بڑا صبر کرنے والا، شکر کرنے والا ہو۔‘‘ 

UP
X
<>