May 2, 2024

قرآن کریم > سبإ >sorah 34 ayat 31

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَن نُّؤْمِنَ بِهَذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّهِمْ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ الْقَوْلَ يَقُولُ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لَوْلا أَنتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ

اور جن لوگوں نے کفر اَپنا لیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ : ’’ ہم نہ تو اس قرآن پر کبھی ایمان لائیں گے، اور نہ اُن (آسمانی کتابوں ) پر جو اس سے پہلے ہوئی ہیں ۔‘‘ اور اگر تم اُس وقت کا منظر دیکھو جب یہ ظالم لوگ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے، تو یہ ایک دوسرے پر بات ڈال رہے ہوں گے۔ جن لوگوں کو (دُنیا میں ) کمزور سمجھا گیا تھا وہ اُن سے کہیں گے جو بڑے بنے ہوئے تھے کہ : ’’ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور مومن بن جاتے۔‘‘

آیت ۳۱   وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِہٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بِالَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ: ’’اور کہا ان کافروں نے کہ ہم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے اس قرآن پر اور نہ ہی اُس (قرآن) پر جو اس سے پہلے تھا۔‘‘

        یہ آیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں لفظ قرآن کا اطلاق تورات پر بھی ہوا ہے۔ اس نکتہ کو سمجھنے کے لیے سورۃ القصص کی آیت: ۴۸ کی تشریح بھی مدنظر رہنی چاہیے، جس میں کفار کا وہ قول نقل ہوا ہے جس میں انہوں نے قرآن اور تورات کو سِحْرٰنِ تَظَاہَرَا  قرار دیا تھا۔ ان کے اس الزام کا مطلب یہ تھا کہ تورات اور قرآن دراصل دو جادو ہیں جنہوں نے باہم گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ تورات میں قرآن اور محمد  کے بارے میں پیشین گوئیاں ہیں جبکہ محمد  کا قرآن تورات کی تصدیق کررہا ہے۔ اس طرح ان دونوں نے ایکا کرکے ہمارے خلاف متحدہ محاذ بنا لیا ہے۔ گویا انہوں نے اپنے اس بیان کے ذریعے قرآن اور تورات کے ایک ہونے کی تصدیق کی تھی۔ آیت زیر مطالعہ میں یہی بات ایک دوسرے انداز میں بیان کی گئی ہے۔

        قرآن حکیم کے اس مطالعے کے دوران یہ اصول کئی بار دہرا یا جا چکا ہے کہ قرآن نے تورات کے جن احکام کی نفی نہیں کی وہ احکام حضور  نے اپنی شریعت میں قائم رکھے ہیں۔ مثلاً قتل مرتد اور رجم تورات کے احکام تھے جن کو حضور  نے برقرار رکھا۔ اور اسی اصول کے تحت قرآن میں کوئی صریح حکم نہ ہونے کے باوجود بھی حضور  نے رجم کیا ہے اور خلفائے راشدینjسے بھی رجم کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ سوائے خوارج کے اہل ِسنت اور اہل تشیع ّکے تمام مکاتب فکر اس پر متفق ہیں کہ شادی شدہ زانی کی سزا رجم یعنی سنگسار کرنا ہے۔ البتہ قرآن پہلی الہامی کتابوں پر مُھَیْمِنْ (نگران) ہے، یعنی اس کی حیثیت کسوٹی کی ہے۔ پہلی کتابوں کے اندر جو تحریفات ہو گئی تھیں ان کی تصحیح اس قرآن کے ذریعے ہوئی ہے۔

        یہاں پر میں ایک حدیث کا حوالہ دیناچاہتا ہوں۔ حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر نبی اکرم  کے پاس ایک کتاب (تورا ت کا نسخہ) لے کر آئے جو انہیں اہل کتاب میں سے کسی نے دی تھی اور اسے آپ  کو پڑھ کر سنانا شروع کر دیا۔ اس پر آپ  ناراض ہوئے اور فرمایا:

((أَمُتَھَوِّکُونَ فِیْھَا یَا ابْنَ الْخَطَّابِ، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ جِئْتُکُمْ بِہٖ بَیْضَاءَ نَقِیَّۃً لَا تَسْأَلُـوْھُمْ عَنْ شَیْئٍ فَیُخْبِرُوْکُمْ بِحَقٍّ فَتُکَذِّبُوْا بِہٖ اَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوْا بِہٖ، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَـوْ اَنَّ کَانَ مُوْسٰی حَیًّا مَا وَسِعَہُ اِلاَّ اَنْ یَّـتَّبِعَنِی))

 

’’اے خطاب کے بیٹے! کیا تم لوگ اس (تورات) کے بارے میں متحیر ہو؟ اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تمہارے پاس یہ (قرآن) روشن اور پاکیزہ اور ہر آمیزش سے پاک لے کر آیا ہوں۔ ان (اہل کتاب) سے کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھو، مبادا وہ تمہیں حق بتائیں اور تم اس کو جھٹلا دو، یا باطل خبر دیں اور تم اس کی تصدیق کر دو۔ اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو ان کے پاس بھی میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔‘‘

 حضور  کے اس فرمان کا مدعا بہت واضح ہے کہ قرآن کے احکام آخری اور حتمی ہیں، تورات کے کسی حکم سے قرآن کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا قرآن کے کسی حکم کے سامنے تورات کے کسی حکم کا حوالہ دینے کا کوئی جواز نہیں۔

        وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ: ’’اور کاش آپ دیکھیں جب یہ ظالم کھڑے کیے جائیں گے اپنے رب کے سامنے۔‘‘

        یَرْجِعُ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضِ نِ الْقَوْلَ: ’’وہ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹائیں گے۔‘‘

        یعنی آپس میں ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے۔

        یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِیْنَ: ’’جو لوگ کمزور تھے وہ ان سے کہیں گے جو بڑے بنے ہوئے تھے کہ اگر تم لوگ نہ ہوتے تو ہم ضرور مؤمن ہوتے۔‘‘

        تاویل ِخاص کے لحاظ سے یہاں قریش کے بڑے بڑے سرداروں کی طرف اشارہ ہے جواپنے عوام کو حضور  سے برگشتہ کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے آزماتے تھے۔ چنانچہ قیامت کے دن ان کے عوام انہیں کوس رہے ہوں گے کہ اگر تم لوگ ہماری راہ میں حائل نہ ہوتے تو ہم ایمان لا چکے ہوتے اور آج ہمیں یہ روزِ بد نہ دیکھنا پڑتا۔ 

UP
X
<>