May 8, 2024

قرآن کریم > يس >sorah 36 ayat 47

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمْ اللَّهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَن لَّوْ يَشَاء اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنتُمْ إِلاَّ فِي ضَلالٍ مُّبِينٍ

اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ : ’’ اﷲ نے تمہیں جو رِزق دیا ہے، اُس میں سے (غریبوں پر بھی) خرچ کرو، تو یہ کافر لوگ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ : ’’ کیا ہم اُن لوگوں کو کھانا کھلائیں جنہیں اگر اﷲ چاہتا تو خود کھلادیتا؟ (مسلمانو !) تمہاری حقیقت اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ تم کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔‘‘

آیت ۴۷   وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ: ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خرچ کرو اس میں سے جو اللہ نے تمہیں دیا ہے‘‘

        یعنی اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے غریبوں کی حاجت روائی کرو، بھوکوں کو کھلاؤ، یتیموں کی سرپرستی کرو، خلق ِخدا کی بہبود اور بھلائی کے دوسرے کاموں میں خرچ کرو۔

        قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰہُ اَطْعَمَہٗٓ: ’’تو یہ کافر کہتے ہیں اہل ِ ایمان سے کہ کیا ہم انہیں کھلائیں جنہیں اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا!‘‘

        اس کے جواب میں ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ اگر چاہتا کہ یہ لوگ بھوکے نہ رہیں تو وہ انہیں خود ہی وافر رزق عطا کر دیتا، لیکن اگر اللہ نے ا نہیں ان کی ضروریات کے مطابق رزق نہیں دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود انہیں اسی حالت میں رکھنا چاہتا ہے۔ تو کیاہم انہیں کھلائیں جنہیں اللہ نے ہی کھلانا نہیں چاہا؟

        اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ: ’’تم تو خود ہی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہو!‘‘

        یہ جواب ہے ان کافروں کا نصیحت کرنے والوں کو کہ تم لوگ ہمیں کیا نصیحتیں کرتے ہو، تمہاری تو مت ماری گئی ہے، تم تو خود بھٹکے ہوئے ہو، تمہاری یہ بات اور نصیحت عقل اور منطق ہی کے خلاف ہے کہ خوشحال لوگ غرباء و مساکین کا خیال رکھیں اور بھوکوں کو کھانا کھلائیں۔ 

UP
X
<>