May 18, 2024

قرآن کریم > الصّافّات >sorah 37 ayat 84

إِذْ جَاء رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ

جب وہ اپنے پروردگار کے پاس صاف ستھرا دل لے کر آئے

آیت ۸۴   اِذْ جَآءَ رَبَّہٗ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ: ’’جب وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا قلب ِسلیم کے ساتھ۔‘‘

        توحید کی معرفت کے حوالے سے انسان کی فطر تِ سلیمہ اور عقل سلیم کا ذکر قرآن حکیم کے اس مطالعے کے دوران اس سے پہلے بھی متعدد بار ہو چکا ہے۔ فطرت کا تعلق چونکہ روح سے ہے اور روح کا مسکن قلب انسانی ہے اس لیے یوں سمجھ لیں کہ فطرتِ سلیمہ اور قلب سلیم انسان کی ایک ہی کیفیت کا نام ہے۔ یعنی انسانی دل کی وہ کیفیت جس میں ا س کی روح اور فطرت اپنی اصلی حالت میں ہو‘ اس کے اصل خدوخال صحیح سلامت ہوں ‘ اس پر غفلت اور مادیت کے پردے نہ پڑ چکے ہوں اوروہ مسخ (perverted) نہ ہو چکی ہو۔ انسانی فطرت کی اس کیفیت کے لیے صوفیاء ’’سیر اِلی اللہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

        ایک انسان ایسے قلب سلیم کے ساتھ جب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو عقل سلیم کی روشنی میں اسے توحید کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔ پھر وہ اس سے آگے بڑھ کر ’’معاد‘‘ یعنی آخرت کے فلسفے کی تہہ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ اس حوالے سے میں قبل ازیں متعدد بار سورۃ الفاتحہ کا حوالہ بھی دے چکا ہوں کہ سورۃ الفاتحہ ایک ایسے ہی انسان کی فطرت کی پکار ہے جو اللہ اور توحید کی معرفت بھی حاصل کر چکا ہے‘ آخرت کی اہمیت و ضرورت کا بھی قائل ہو چکا ہے اور اس نتیجے پر بھی پہنچ چکا ہے کہ ’’اللہ کی بندگی‘‘ ہی اصل طریقۂ زندگی ہے‘ مگر اُسے یہ نہیں معلوم کہ اللہ کی بندگی کیسے کی جائے۔ حضور کی بعثت سے پہلے بہت سے ایسے ’’موحدین‘‘ مکہ میں موجود تھے۔ مثلاً حضرت عمر کے بہنوئی حضرت سعیدi کے والد زید ایک ایسے ہی موحد تھے جو کعبے کے پردوں سے لپٹ کر دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں صرف تیری بندگی کرنا چاہتا ہوں ‘ مگر میں نہیں جانتا کہ تیری بندگی کیسے کروں۔

        سورۃ الفاتحہ کے نظم پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسانی فطرتِ سلیمہ ہی کی پکار ہے جس کو قرآن نے (اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) کے الفاظ عطا کیے ہیں۔ یعنی فطرتِ سلیمہ کا حامل ایک انسان اپنی عقل سلیم کی مدد سے ( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) تک پہنچ گیا۔ یعنی اس نے اللہ کو پہچان لیا ہے اور ا س کے لیے شکر و ثنا کے جذبات کی کونپلیں بھی ا س کے دل میں پھوٹ پڑی ہیں۔ اُس نے اپنے اللہ اور اپنے رب کو ایک (الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) ذات کے طور پر بھی پہچان لیا ہے‘ اسے ( مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ) کا عرفان بھی حاصل ہو گیا ہے۔ گویا اُس کی فطرتِ سلیمہ نے نہ صرف اسے آخرت کے احتساب کی ضرورت اور منطق بھی سمجھا دی ہے‘ بلکہ یہ لطیف نکتہ بھی اس کے دل میں بٹھا دیا ہے کہ وہی اللہ جو ربّ العالمین ہے‘ جس کی رحمت اور مہربانی سے اس کائنات کی ایک ایک چیز قائم ہے‘ وہی اللہ احتساب اور بدلے کے دن کا مالک بھی ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر گویااُس کی زبان بے اختیار(اِیَّاکَ نَعْبُدُ َواِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ) کا اقرار کرتی ہے‘ مگر اس سے آگے اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ اس لیے کہ اس کی فطرتِ سلیمہ اس راستے پر اسے صرف اسی مقام تک راہنمائی فراہم کر سکتی تھی اور اس کی عقل سلیم کی پرواز بس یہیں تک تھی۔ اس سے آگے نورِ وحی کی راہنمائی درکار ہے۔ چنانچہ اس کے منہ میں یہ دعائیہ الفاظ ڈال دیے گئے:(اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ) کہ اے اللہ! اے ربّ العالمین! اب تو خودہماری دست گیری فرما! ہمیں اپنی بندگی کی ہدایت بھی دے اور اس رستے پر چلنے کے لیے مدد اور توفیق بھی مرحمت فرما‘ تا کہ ہم تیری بندگی کا حق ادا کر سکیں۔ اس دعا کے جواب میں پھر قرآن کی صورت میں اسے یہ راہنمائی مہیاکر دی گئی۔

UP
X
<>