May 18, 2024

قرآن کریم > الصّافّات >sorah 37 ayat 99

وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ

اور ابراہیم نے کہا : ’’ میں اپنے رَبّ کے پاس جارہاہوں ، وہی میری رہنمائی فرمائے گا

آیت ۹۹   وَقَالَ اِنِّیْ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ: ’’اور اب اُس نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں ‘ وہ ضرور میری راہنمائی کرے گا۔‘‘

        یہ حضرت ابراہیم  کی ہجرت کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جب کوئی قوم اپنے نبی یا رسول کے قتل پر آمادہ ہو جائے تو پھر وہ نبی یا رسول مزید اس قوم کے درمیان نہیں رہتے۔ آپؑ کی قوم نے تو آپؑ کے قتل کی صرف منصوبہ بندی ہی نہیں کی تھی بلکہ آپؑ کو بالفعل آگ میں ڈال دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے آپؑ کو معجزانہ طور پر بچا لیا۔ اسی طرح یہودیوں نے بھی اپنے طور پر حضرت مسیح کو سولی پر چڑھا دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی تدبیر کو ناکام بنایا اور آپؑ کو اپنی طرف اٹھا لیا۔اسی طرح مشرکین مکہ نے بھی جب محمد ٌرسول اللہ کے قتل کا ارادہ کیا اور آپؐ کو قتل کرنے کے لیے جمع ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اپنے پیغمبر کو مدینہ منورہ پہنچا دیا۔

        چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کے تحت حضرت ابراہیم  نے عراق سے ہجرت کا ارادہ فرمایا۔ اس وقت تک آپؑ کو شاید ہجرت کی منزل کے بارے میں معلوم نہیں تھا‘ اس لیے آپؑ نے فرمایا کہ میرا پروردگار خود میری راہنمائی فرمائے گا کہ مجھے کدھر جانا ہے۔ چنانچہ آپؑ نے عراق سے فلسطین کی طرف ہجرت کی‘ جس کے لیے آپؑ کو بہت لمبا راستہ اختیار کر نا پڑا۔ عراق‘ شام اور فلسطین کے درمیان شرقِ اردن کا پورا علاقہ لق و دق صحرا پر مشتمل ہے‘ جسے عبور کرنا بالکل ناممکن تھا۔ چنانچہ آپؑ دریائے فرات کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے اوپر شام کے شمالی علاقے ’’باران‘‘ پہنچے اور وہاں سے نیچے فلسطین کے علاقے میں داخل ہوئے۔

UP
X
<>