May 3, 2024

قرآن کریم > ص >sorah 38 ayat 20

وَشَدَدْنَا مُلْكَهُ وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ

اور ہم نے اُن کی سلطنت کو اِستحکام بخشا تھا، اور اُنہیں دانائی اور فیصلہ کن گفتگو کا سلیقہ عطا کیا تھا

آیت ۲۰:   وَشَدَدْنَا مُلْکَہٗ وَاٰتَیْنٰہُ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ: ’’اور ہم نے اُس کی حکومت کو خوب مضبوط کیا تھا‘ اور ہم نے اُسے حکمت عطا کی تھی اور فیصلہ کن بات کہنے کی صلاحیت بھی۔‘‘

        یعنی ایسی واضح‘ فیصلہ کن اور دو ٹوک بات جو تمام مخاطبین و متعلقین کے لیے موجب ِاطمینان ہو۔

        اب آگے اس سورت میں چند ایسے واقعات کا ذکر ہونے جا رہا ہے جو مشکلات القرآن میں سے ہیں۔ دراصل ان واقعات کا بیان یہاں اشاروں کنایوں میں ہو ا ہے۔ تفصیلات کی تحقیق کے لیے اگر ہم تورات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہاں ان واقعات کے حوالے سے جو معلومات ملتی ہیں وہ انبیائے کرام کے شایانِ شان نہیں۔ یوں ہمارے لیے شش و پنج کی سی صورت ِحال بن جاتی ہے۔ بہر حال ان واقعات کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں خطا یا لغزش کا کوئی معاملہ ہوا ہے۔ اس ضمن میں یہ نکتہ اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت آدم سے لے کر نبی آخر الزماں حضرت محمد تک تمام انبیاء و رسل f معصوم تھے‘ لیکن انسان تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ ان میں کبھی غلطی کا رجحان ہی پیدا نہ ہوا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر وہ فرشتے ہوتے‘ ا نسان نہ رہتے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندے ہونے کے سبب تمام انبیاء و رسل fہر وقت اللہ کی حفاظت میں رہتے تھے۔ خود حضور کی زندگی میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً کتب سیرت میں حضور کے بارے میں آتا ہے کہ جوانی میں (ظہورِنبوت سے پہلے) دو مرتبہ ایسا ہوا کہ آپؐ نے کسی میلے میں جانے کا ارادہ کیا۔ عرب میں ہر سال بہت سے ایسے میلے لگتے تھے جن میں فحش گوئی اور لہو و لعب کا سامان بھی ہوتا تھااور بے ہودہ مشاعرے بھی سجائے جاتے تھے۔ ان میلوں میں عکاظ کا بازار بہت مشہور تھا جوہر سال خصوصی اہتمام سے سجتا تھا اور اس میں شرکت کے لیے پورے عرب سے لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔ روایات کے مطابق آپ نے دو مرتبہ ایسے کسی بازار یا میلے میں جانے کا ارادہ فرمایا‘ مگر دونوں مرتبہ ایسا ہوا کہ راستے میں جہاں آپؐ آرام کے لیے رکے‘ وہاں آنکھ لگ گئی اور پھر ساری رات سوتے میں ہی گزر گئی۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اس لہو و لعب میں شریک ہونے سے آپؐ کو کلیۃً محفوظ رکھا۔ اگرچہ یہ دونوں واقعات حضور کے منصب ِنبوت پر فائز ہونے سے پہلے کے ہیں‘ لیکن ایک نبی تو پیدائشی طور پر ہی نبی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں حضور کا فرمان ہے : ( (کُنْتُ نَبِیًّا وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ) ) ’’میں اُس وقت بھی نبی تھا جبکہ آدمؑ کی روح ابھی ان کے جسد میں نہیں پھونکی گئی تھی‘‘ ۔ یعنی عالم ارواح میں بھی حضور کی روح مبارک کی ایک خصوصی امتیازی شان تھی۔ بہر حال آپؐ کی نبوت کا ظہور چالیس سال کی عمر میں ہوا لیکن آپؐ بچپن سے ہی براہِ راست اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے اور اس حفاظت کا مطلب یہی ہے کہ بشری سطح پر اگر کبھی کوئی غلط ارادہ پیدا ہو بھی گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر عمل کی نوبت نہ آنے دی۔

         آئندہ آیات میں جس واقعہ کا ذکر ہے اس کی جوتفصیل محرف شدہ تورات میں ملتی ہے اس میں حضرت داؤد پر بہت شرمناک الزامات عائد کیے گئے ہیں‘ جو عصمت ِ انبیاء ؑ کے یکسر منافی ہیں۔ قرآن حکیم کے اشارات سے اصل بات یوں معلوم ہوتی ہے کہ حضرت داؤد کی بہت سی بیویاں تھیں (واضح رہے کہ چار بیویوں کی پابندی شریعت ِمحمدیؐ میں ہے‘ اس سے قبل ایسی کوئی پابندی نہیں تھی)۔ اس کے باوجود آپؑ کے دل میں ایک ایسی عورت سے نکاح کی رغبت پیدا ہوئی جو کسی دوسرے شخص کے نکاح میں تھی۔ بس اس خیال کا آنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اس پر متنبہ فرمایا اور اس سے روکنے کی ایک صورت پیدا فرما دی۔ 

UP
X
<>