May 8, 2024

قرآن کریم > ص >sorah 38 ayat 24

قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَى نِعَاجِهِ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنْ الْخُلَطَاء لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ إِلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ

داود نے کہا: ’’ اس نے اپنی دُنبیوں میں شامل کرنے کیلئے تمہاری دُنبی کا جو مطالبہ کیا ہے، اُس میں یقینا تم پر ظلم کیا ہے۔ اور بہت سے لوگ جن کے درمیان شرکت ہوتی ہے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں ، سوائے اُن کے جو ایمان لائے ہیں ، اور جنہوں نے نیک عمل کئے ہیں ، اور وہ بہت کم ہیں ۔‘‘ اور داود کو خیا ل آیا کہ ہم نے دراصل اُن کی آزمائش کی ہے، اس لئے اُنہوں نے اپنے پروردگار سے معافی مانگی، جھک کر سجدے میں گر گئے، اور اﷲ سے لو لگائی

آیت ۲۴:   قَالَ لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ اِلٰی نِعَاجِہٖ: ’’داؤدؑ نے کہا کہ یہ تو واقعتااس نے بہت ظلم کیا ہے‘ تمہاری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کر کے۔‘‘

         وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَآءِ لَیَبْغِیْ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْض ’’اور یقینا مشترک معاملہ رکھنے والوں میں سے اکثر ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں‘‘

        قریبی رشتہ داروں کے باہمی اشتراک کو پنجابی میں ’’شریکا‘‘ کہا جاتا ہے اور شریکے والوں میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ جس کسی کو جہاں موقع ملتا ہے وہ دوسرے کے ساتھ زیادتی کرنے میں نہیں چوکتا۔

         اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِیْلٌ مَّا ہُمْ: ’’سوائے ان لوگوں کے جو صاحب ِ ایمان اور نیک عمل والے ہوں اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔‘‘

         وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہ ’’اور داؤدؑ کو اچانک خیال آیا کہ ہم نے اسے آزمایا ہے‘‘

        حضرت داؤد سمجھ گئے کہ ان دو اشخاص کا ان کے پاس آنا اور آ کر مقدمہ پیش کرنا اللہ کی طرف سے تھا اور اللہ نے یہ ساری صورت حال انہیں متنبہ کرنے کے لیے پیدا فرمائی تھی۔

         فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہٗ وَخَرَّ رَاکِعًا وَّاَنَابَ: ’’تو اُس نے (فوراً) اپنے رب سے استغفار کیا اور اُس کے حضور جھک گیا پوری طرح متوجہ ہو کر۔‘‘

        رکوع کے لغوی معنی جھکنے کے ہیں ‘ لہٰذا یہاں رَاکِعًا سے رکوع بھی مراد ہو سکتا ہے اور سجدہ بھی۔

        اس واقعہ کے حوالے سے جو اسرائیلی روایت دستیاب ہے اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس کا ایک اثر (قول) بھی موجود ہے جس کے مرفوع ہونے کے بارے میں کوئی واضح اشارہ یا ثبوت موجود نہیں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے حضور سے اس بارے میں سنا ہو اوریہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اسرائیلی روایت سنی ہو اور اسی کو بیان کر دیا ہو (واللہ اعلم)۔ بہر حال میری رائے اس حوالے سے یہی ہے کہ انبیاء کے معاملے میں بشری تقاضوں کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ سورۃ الاحزاب کی آیت: ۵۲ ہم پڑھ چکے ہیں‘ جس میں حضور سے فرمایا گیا ہے : (لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُہُنّ) ’’اس کے بعد اب مزید عورتیں آپؐ کے لیے (نکاح میں لانا) جائز نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان کی جگہ دوسری بیویاں بدل لیں اگرچہ ان کا حسن آپ کو کتنا ہی پسند ہو!‘‘ ان الفاظ میں حضور کی خواہش کے امکان کا ذکر بہت واضح انداز میں ملتا ہے کہ اگر آپؐ کی طبیعت میں کسی خاتون سے نکاح کرنے کے بارے میں آمادگی پیدا ہو بھی جائے تو بھی آپؐ ایسا نہ کریں۔ چنانچہ اس سے یہی ثا بت ہوتا ہے کہ انبیاء انسان تھے اور اُن کی شخصیات میں انسانی و بشری تقاضے بھی موجود تھے‘ لیکن اس کے باوجود بھی وہ معصوم تھے۔ اس لیے کہ اگر کبھی کسی بشری تقاضے کے تحت کسی نبی کو کوئی ایسا خیال آتا بھی تھا جو کہ نہیں آنا چاہیے تھا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتا اور اس خیال کی تکمیل کی صورت پیدا نہیں ہونے دیتا تھا۔ اسی کا نام عصمت ِانبیاء ؑہے۔ 

UP
X
<>