May 9, 2024

قرآن کریم > ص >sorah 38 ayat 28

أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ

جو لوگ ایمان لائے ہیں ، اور جنہوں نے نیک عمل کئے ہیں ، کیا ہم اُن کو ایسے لوگوں کے برابر کر دیں گ جو زمین میں فساد مچاتے ہیں؟ یا ہم پرہیز گاروں کو بدکاروں کے برابر کردیں گے؟

آیت ۲۸:   اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ: ’’کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے‘ زمین میں فساد مچانے والوں کی طرح کر دیں گے؟‘‘

        ظاہر ہے دنیا میں کچھ لوگ نیکو کار ہیں جو اکثر بھلائی کے کاموں میں کوشاں رہتے ہیں‘ جبکہ کچھ لوگ بدمعاش‘ ظالم اور شریر ہیں جو ہر وقت بد امنی پھیلانے اور لوٹ مار کرنے میں مصروف ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر انسان کے لیے اسی دنیا کی زندگی ہی اصل زندگی ہوتی اور آخرت کی زندگی نہ ہوتی تو نیک لوگ اور مجرمین ایک جیسے ہو جاتے۔ یوں نہ تو نیکی کے راستے پر چلنے‘ غلط کاریوں سے بچنے اور قدم قدم پر مشکلات برداشت کرنے والوں کو کوئی جزا ملتی اور نہ ہی ان ظالموں ‘ قاتلوں اور لٹیروں کو کوئی سزا ملتی جو خلق خدا پر ظلم بھی کرتے رہے اورعیش و عشرت کے مزے بھی لوٹتے رہے۔ بلکہ ایسی صورت میں نیکوں کار لوگ سخت گھاٹے میں رہتے کہ انہوں نے ساری زندگی تکلیفوں اور پابندیوں میں گزاردی اور اس کا کچھ اجر بھی انہیں نہ ملا۔ اس کے برعکس بدکردار اور بد قماش لوگ فائدے میں رہتے کہ انہوں نے عمر بھر جو چاہا کیا‘ نہ جائز و ناجائز کو دیکھا اور نہ ہی خود کو کبھی قانون اور اخلاقیات (scruples) کا پابند سمجھا اور پھر اس کی پاداش میں انہیں کوئی سزا بھی نہ ملی۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوتا کہ یہ دنیا بے کار پیدا ہوئی ہے اور انسان کی جبلت ّمیں جو اخلاقی ِحس اور نیکی و بدی کی جو تمیز پیدا کی گئی ہے وہ بھی بے مقصد اور بے جواز ہے‘ کیونکہ اس تمیز اور حس کے مطابق تو نیکی کا نتیجہ اچھا اور برائی کا انجام برا ہونا چاہیے۔ اگر نظریاتی طور پر آخرت کی نفی ہو جائے تو یہ سب نتائج الٹے ہو جاتے ہیں۔

         اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ: ’’کیا ہم متقیوں کو فاجروں کی طرح کر دیں گے؟‘‘

        کیا ہم اپنے متقی بندوں کو ان فاسقوں اور فاجروں کے برابر کر دیں گے؟

UP
X
<>