May 2, 2024

قرآن کریم > ص >sorah 38 ayat 75

قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ

اﷲ نے کہا : ’’ اِبلیس ! جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا، اُس کو سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے روکا ہے؟ کیا تو نے تکبر سے کام لیا ہے، یا تو کوئی بہت اونچی ہستیوں میں سے ہے؟‘‘

آیت ۷۵:   قَالَ یٰٓاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ: ’’اللہ نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اُس کو سجدہ کرتا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے؟‘‘

        یہاں پر آدمd کی تخلیق کو اللہ تعالیٰ کا اپنے دونوں ہاتھوں سے نسبت دینا بہت اہم اور قابل غور ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کی قدرت کے استعارے کے طور پر اللہ کے ہاتھوں کا ذکر متعدد بار آیا ہے۔ جیسے سورۂ یٰـسٓ کی آیت: ۷۱ میں فرمایا گیا کہ ہم نے اپنے ہاتھوں (اَیدِینَا) سے ان کے لیے چوپائے بنائے ہیں‘ لیکن آیت زیر مطالعہ میں ’’دونوں ہاتھوں‘‘ کا ذکر خصوصی اہتمام کے ساتھ ہوا ہے۔ میرے نزدیک اس سے دو عالم یعنی عالم ِ خلق اور عالم امر مراد ہیں‘ جنہیں اللہ تعالیٰ نے آدم یعنی انسان میں جمع کر دیا ہے۔ سورۃ الاعراف کی آیت ۵۴ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ: یعنی خلق اور امر کے دونوں عالم اُسی کے ہیں‘ ان دونوں پر اسی کا تسلط اوراسی کی حکومت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی کچھ مخلوق تو ایسی ہے جس کا تعلق صرف عالم امر سے ہے۔ مثلاً فرشتے جو حیوانی جسم یاحیوانی خواہشات نہیں رکھتے اور نر یا مادہ کی تفریق سے بھی منزہ و مبرا ّہیں۔ دوسری طرف جنات اور تمام ارضی حیوانات ہیں جو عالم خلق کی مخلوق ہیں۔ ان میں ’’روح‘‘ نہیں پائی جاتی۔ اس لحاظ سے انسان گویا اللہ تعالیٰ کی واحد مخلوق ہے جس کا تعلق ان دونوں عالم سے ہے۔ اس کا حیوانی جسم مٹی سے بنا ہے‘ اس لحاظ سے یہ ’’عالم خلق‘‘ کی چیز ہے‘ جبکہ اس کے جسم میں پھونکی گئی روح ’’عالم امر‘‘ کی امانت ہے۔ جیسا کہ سورۃ الاحزاب کی اس آیت میں فرمایا گیا: (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا) ’’یقینا ہم نے امانت کو پیش کیا آسمانوں پراور زمین پر اور پہاڑوں پرتو انہوں نے انکار کر دیا اس کو اٹھانے سے اور وہ اس سے ڈر گئے‘ اور انسان نے اسے اٹھالیا۔ یقینا وہ بڑا ظالم اور بڑا جاہل ہے‘‘ ۔ (امانت کے اس تصور کی وضاحت اس آیت کے مطالعے کے دوران کی جا چکی ہے۔ )

        چنانچہ تخلیق ِآدم کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھوں کا ذکر گویا استعارہ ہے اس کی تخلیق میں عالم ِ خلق اور عالم امر کو جمع کرنے کا۔ انسان کو دونوں ہاتھوں سے بنانے کا یہ مفہوم بھی لیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو خصوصی اہتمام سے بنایا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے ا ور اس لحاظ سے یہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کا نقطہ عروج (climax) ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل صحیح ہے۔

         اَسْتَکْبَرْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ : ’’کیا تو نے تکبر کیا یا تو عالی مرتبہ لوگوں میں سے ہے؟‘‘ 

UP
X
<>