April 26, 2024

قرآن کریم > الزمر >sorah 39 ayat 10

قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ

کہہ دو کہ : ’’ اے میرے ایمان والے بندو ! اپنے پروردگار کا خوف دل میں رکھو۔ بھلائی اُنہی کی ہے جنہوں نے اس دُنیا میں بھلائی کی ہے، اور اﷲ کی زمین بہت وسیع ہے، جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں ، اُن کا ثواب اُنہیں بے حساب دیا جائے گا۔‘‘

آیت ۱۰:  قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّکُمْ:  ’’(اے نبی!)  آپ کہیے کہ اے میرے وہ بندو جوایمان لائے ہو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو۔ ‘‘

        تم لوگ اللہ پر ایمان لائے ہو تو اب تمہیں  ہروقت اللہ کی رضا جوئی کی فکر ہونی چاہیے۔ لہٰذا اللہ جو کام کرنے کا حکم دے وہ کرو اور جس سے وہ منع کرے اس سے باز رہو۔ یہاں  پر مسلمانوں  کو نبی اکرم کی وساطت سے مخاطب کیا گیا ہے۔ یہاں  پر یہ نکتہ ایک دفعہ پھر ذہن نشین کر لیں  کہ مکی سورتوں  میں  اہل ایمان کو مخاطب کرنے کا یہی انداز ملتا ہے ، جبکہ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے براہِ راست خطاب کا اسلوب صرف مدنی سورتوں  میں  پایا جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں  اہل ایمان سے براہِ راست خطاب کرنے کے بجائے حضور کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اے نبی! آپ میری طرف سے میرے اہل ایمان بندوں  کو یہ پیغام پہنچا دیں :

        لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ ہٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃٌ:  ’’جو لوگ احسان کی روش اختیار کریں  گے ، ان کے لیے اس دنیا میں  بھی بھلائی ہے۔ ‘‘

        وَاَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃٌ:  ’’اور اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ ‘‘

        اگر مکہ میں  رہتے ہوئے تمہارے لیے توحید پر کاربند رہنا ممکن نہیں  رہا تو یہاں  سے ہجرت کر جائو۔

        اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ:  ’’یقینا صبر کرنے والوں  کو ان کا اجر پورا پورا دیا جائے گا بغیر حساب کے۔ ‘‘

        اجر کے حوالے سے یہاں  پر یُوَفَّی کا اصول بھی بتایا گیا ہے اور بِغَیْرِ حِسَابٍ کی نوید بھی سنائی گئی ہے۔ یعنی پورا پورا بدلہ دینے کے بعد اللہ کا مزید فضل بھی ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے معاملے میں  حساب کا کوئی سوال ہی نہیں !

UP
X
<>