May 4, 2024

قرآن کریم > الزمر >sorah 39 ayat 11

قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ

کہہ دو کہ : ’’ مجھے تو حکم دیا گیا ہے کہ میں اﷲ کی اس طرح عبادت کروں کہ میری بندگی خالص اُسی کیلئے ہو

آیت ۱۱:  قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ :  ’’(اے نبی!)  آپ کہہ دیجیے مجھے توحکم ہوا ہے کہ میں  بندگی کروں  اللہ کی اُس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ ‘‘

        یہ وہی الفاظ ہیں  جو اس سے پہلے آیت ۲ میں  بھی آ چکے ہیں ۔ یہ مضمون اس سورت کا عمود ہے اوراس میں  بار بار آئے گا۔ چنانچہ اس مضمون کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ اسے اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ اس حوالے سے بنیادی طور پر یہ نکتہ ذہن نشین کر لیجیے کہ ہر چیز کی طرح عبادت کا بھی ایک ظاہر ہے اور ایک اس کی اصل حقیقت ہے۔ عبادت کا ظاہر اس کی رسومات ہیں ۔ ’’رسم‘‘ کسی شے کی ظاہری شکل کو کہا جاتا ہے۔ مثلاً یہ لکھائی میں  جو حروف اور الفاظ استعمال ہوتے ہیں  ان کی ظاہری اشکال کو ’’رسم‘‘ (رسم الخط)  کہتے ہیں ۔ جیسے قرآن کا موجودہ رسم الخط ’’رسم عثمانی ‘‘کہلاتا ہے۔ اب اگر نماز کی مثال لیں  تو نماز میں  کھڑے ہونا، اللہ کی حمد و تسبیح کرنا، رکوع و سجدہ کرنا مراسم عبادت ہیں ۔ بعض دوسرے مذاہب میں  اپنے معبود کے سامنے مؤدب کھڑے ہونا ، سلیوٹ کرنا اور ہاتھ جوڑناوغیرہ ان کی عبادت کے مراسم ہیں ۔ چنانچہ عرف عام میں  مراسم ِعبودیت (عبادت کی ظاہری شکل و صورت)  کو ہی ’’عبادت‘‘ سمجھا جاتا ہے جبکہ عبادت کی اصل حقیقت کچھ اور ہے۔

        اب عبادت کی اصل حقیقت کو یوں  سمجھیں  کہ یہ بھی دو حصوں  پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک جسد ہے اور ایک اس کی روح۔ اصل عبادت کا جسد ’’اطاعت‘‘ ہے۔ لیکن عبادت کے حوالے سے اطاعت کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے لفظ ’’عبادت ‘‘کے لغوی معنی کو ذہن میں  رکھنا ہو گا۔ عبادت کا لفظ ’’عبد‘‘ سے مشتق ہے اور عبد کے معنی غلام کے ہیں ۔ عبد یا غلام اپنے آقا کی ہمہ تن اور ہمہ وقت اطاعت (غلامی)  کا پابند ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں  اس سے پہلے ہم یہ لفظ دو مرتبہ غلامی اور کلی اطاعت کے معنی میں  پڑھ چکے ہیں ۔ سورۃ المؤمنون میں  حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونe کے بارے میں  فرعون کا یہ قول نقل ہوا ہے (وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ)   کہ ان کی قوم تو ہماری غلام ہے۔ اسی طرح سورۃ الشعراء میں  حضرت موسیٰ کے اس مکالمے کا حوالہ آ چکا ہے جس میں  آپؑ نے فرعون کو مخاطب کر کے فرمایا تھا (وَتِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ) ’’اور یہ احسان جو تو مجھے جتلا رہا ہے (کیا یہ اس کا بدلہ ہے)  کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے؟‘‘ اب ظاہر ہے بنی اسرائیل فرعون یا قبطیوں  کی پرستش یا پوجا تونہیں  کرتے تھے، وہ ان کی نماز نہیں  پڑھتے تھے اور انہیں  سجدہ بھی نہیں  کرتے تھے۔ البتہ وہ ان کے غلام تھے اور اس حیثیت میں  ان کی ’’اطاعت‘‘ کے پابند تھے۔ لہٰذا متذکرہ بالا دونوں  آیات میں  عبد کا لفظ کلی اطاعت یا غلامی کے مفہوم میں  ہی استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ اطاعت یا غلامی دراصل عبادت کا جسد ہے جبکہ اس کی روح ’’محبت‘‘ ہے۔ یعنی اگر کسی کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر اس کی اطاعت کی جائے تووہ اس کی عبادت ہو گی، جبکہ جبری اطاعت عبادت نہیں  ہو سکتی۔ مثلاً ۱۹۴۷ء سے پہلے برصغیر میں  ہم لوگ انگریز کی اطاعت کرتے تھے ، لیکن ہماری اس اطاعت کو عبادت نہیں  کہا جا سکتا، اس لیے کہ یہ جبری اطاعت تھی۔

        امام ابن تیمیہ ؒ اور ان کے شاگرد حافظ ابن قیم ؒنے عبادت کی تعریف یوں  کی ہے: العبادۃ تجمع اَصْلَین : غایۃَ الحُبِّ مع غایۃ الذُّلِّ والخُضوع یعنی اللہ کی عبادت دو چیزوں  کے مجموعے کا نام ہے: اس کے ساتھ غایت درجے کی محبت اور اس کے سامنے غایت درجے کا تذلل اور عاجزی کا اظہار۔ دوسرے لفظوں میں  اللہ کی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ انسان حد درجے کی محبت کے ساتھ خود کو اللہ کے سامنے بچھا دے اور اس کا مطیع و منقاد ہوجائے۔ چنانچہ اللہ کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر اس کی کلی اطاعت کرنا اصل عبادت ہے، جبکہ مراسم عبادت کی حیثیت عبادت کے ’’ظاہر‘‘ کی ہے۔

        آیت زیر مطالعہ کا مضمون گویا اس سورت کا عمود ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اُس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ اس ضمن میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ اللہ کی اطاعت سے آزاد کسی دوسرے کی مستقل بالذات اطاعت تو شرک ہے ہی، لیکن اگر کسی نے اللہ کی اطاعت کے ساتھ کسی اور کی اطاعت کو بھی شریک کر لیا تو ایسی جزوی یا مشترکہ اطاعت اللہ کو قبول نہیں ۔ ایسی اطاعت اللہ کی طرف سے ایسے اطاعت گزار کے منہ پر دے ماری جائے گی۔ اس حوالے سے سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۰۸ کا یہ حکم بہت واضح ہے :یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً:  ’’اے اہل ایمان! اسلام میں  پورے کے پورے داخل ہو جائو!‘‘ یعنی اللہ کو ُکلی اطاعت مطلوب ہے۔ کسی کی پچیس فی صد، پچاس فی صد یا پچھتر ّ(۷۵) فی صد اطاعت اسے قبول نہیں  ۔

        یہ تو ہے عبادت کی اصل روح اور اطاعت کی اصل کیفیت جو اللہ کو مطلوب ہے۔ لیکن ایک ہم ہیں  جو یہ سمجھے بیٹھے ہیں  کہ ہم پانچ یا دس فیصد اطاعت پر ہی اللہ کو (نعوذ باللہ) ٹرخا دیں  گے اور وہ اسی معیار کی اطاعت پر ہمیں  جنت اور اس کی نعمتوں  سے نواز دے گا۔ دراصل ہماری اسی ٹیڑھی سوچ کی وجہ سے آج ہمارے ذہنوں  سے زندگی کے تمام گوشوں  میں  اللہ کی کلی اطاعت اور کلی بندگی کا تصور نکل چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی کے اسی تصور کو زیر مطالعہ سورتوں  میں  ایک خاص ترتیب سے اجاگر کیا گیا ہے۔ اس طرح کہ اس مضمون کی جڑیں  اس پہلی سورت میں  ملیں  گی اور اس کی چوٹی چوتھی سورت یعنی سورۃ الشوریٰ میں جا کر نظر آئے گی۔ 

UP
X
<>