May 8, 2024

قرآن کریم > الزمر >sorah 39 ayat 23

اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاء وَمَن يُضْلِلْ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ

اﷲ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے، ایک ایسی کتاب جس کے مضامین ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ، جس کی باتیں بار با ر دُہرائی گئی ہیں ۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں اپنے پروردگار کا رُعب ہے وہ اس سے کانپ اُٹھتے ہیں ، پھر اُن کے جسم اور اُن کے دل نرم ہو کر اﷲ کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ یہ اﷲ کی ہدایت ہے جس کے ذریعے وہ جس کو چاہتا ہے، راہِ راست پر لے آتا ہے، اور جسے اﷲ راستے سے بھٹکا دے، اُسے کوئی راستے پر لانے والا نہیں

آیت ۲۳:  اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰـبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ:  ’’اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے کتاب کی صورت میں ، جس کے مضامین باہم مشابہ ہیں  اور بار بار دہرائے گئے ہیں ‘‘

        ہمارے ہاں  لوگ عام طور پر لفظ ’’حدیث ‘‘کے صرف ایک ہی مفہوم سے آشنا ہیں  جو کہ اس لفظ کا اصطلاحی مفہوم ہے، یعنی فرمانِ رسولؐ کو اصطلاحاً حدیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ اس لفظ کے لغوی معنی بات یا کلام کے ہیں  اور قرآن میں  لفظ ’’حدیث‘‘اسی مفہوم میں  آیا ہے۔ جیسے سورۃ المرسلات میں  فرمایا گیا: فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ: کہ اس قرآن کے بعد اب یہ لوگ بھلااورکس بات پر ایمان لائیں  گے؟ چنانچہ آیت زیر مطالعہ میں  اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کا مطلب ہے :بہترین کلام۔

        مُّتَشَابِہًا سے مراد قرآن کے الفاظ، اس کی آیات اور اس کے مضامین کا باہم مشابہ ہونا ہے۔ یہ مشابہت قرآن کے اہم مضامین کی تکرار کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں  کہ قصہ آدم و ابلیس قرآن میں  سات مقامات پر مذکور ہے۔ بظاہر سب مقامات پر یہ قصہ ایک سا معلوم ہوتا ہے مگر ہر جگہ سیاق و سباق کے حوالے سے اس میں کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور سامنے آتی ہے۔ اگر ایک شخص اپنے معمول کے مطابق سات روز میں  قرآن مجید ختم کرتا ہو تو وہ ہر روز کہیں  نہ کہیں  اس قصے کی تلاوت کرے گا۔ اس لحاظ سے اس قصے کی تفصیلات ، متعلقہ آیات اور ان آیات کے الفاظ اسے باہم مشابہ محسوس ہوں  گے۔ اسی طرح بعض سورتوں  کی بھی آپس میں  گہری مشابہت ہے اور اسی مشابہت کی بنا پر انہیں  جوڑوں  میں  تقسیم کیا گیا ہے ---- مَثَانِیَ کا معنی ہے دہرائی ہوئی یا جوڑوں  کی صورت میں ۔

        تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ:  ’’اس (کی تلاوت)  سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں  جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔‘‘

        متقی لوگ جب قرآن مجید کو پڑھتے ہیں تو ان پر اللہ کا خوف طاری ہو جاتا ہے اور اس خوف کی وجہ سے ان کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے۔

        ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ:  ’’پھر ان کی کھالیں  اور ان کے دل اللہ کی یاد کے لیے نرم پڑ جاتے ہیں۔‘‘

        یعنی ان کے بدن اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف جھک پڑتے ہیں۔

        ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ:  ’’یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ ہدایت بخشتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ ‘‘

        وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ:  ’’اور جس کو اللہ گمراہ کر دے پھر اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔‘‘

        جس کی گمراہی پر اللہ ہی کی طرف سے مہر ثبت ہو چکی ہو پھر اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟

UP
X
<>