May 8, 2024

قرآن کریم > الزمر >sorah 39 ayat 29

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً رَّجُلاً فِيهِ شُرَكَاء مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلاً سَلَمًا لِّرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلاً الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لا يَعْلَمُونَ

اﷲ نے ایک مثا ل یہ دی ہے کہ ایک (غلام) شخص ہے جس کی ملکیت میں کئی لوگ شریک ہیں جن کے درمیان آپس میں کھینچ تان بھی ہے، اور دوسرا (غلام) شخص وہ ہے جو پورے کا پورا ایک ہی آدمی کی ملکیت ہے۔ کیا ان دونوں کی حالت ایک جیسی ہوسکتی ہے؟ الحمد ﷲ ! (اس مثال سے بات بالکل واضح ہوگئی) لیکن ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں

آیت ۲۹:  ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْہِ شُرَکَآءُ مُتَشَاکِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ:  ’’اللہ نے مثال بیان فرمائی ہے ایک شخص کی جس میں  بہت سے آپس میں  ضد رکھنے والے آقا شریک ہیں  اور ایک وہ شخص ہے جو پورے طور پر ایک ہی آقا کا غلام ہے۔ ‘‘

        یہ تمثیل ’’توحید عملی‘‘ کا مفہوم واضح کرنے کے لیے بیان فرمائی جا رہی ہے۔ یہ دو غلاموں  کی حالت کا تقابل ہے۔ ایک غلام کے کئی آقا ہیں  اور وہ بھی ضدی ، مختلف الاغراض اور مختلف مزاج رکھنے والے ۔ اور دوسرا غلام وہ ہے جس کا ایک ہی آقا ہے۔ مقامِ غور ہے کہ اگر چار آپس میں  ضد رکھنے والے اور تند خو آدمیوں  نے مل کر ایک غلام خرید رکھا ہے تو اس غلام کی جان توہر وقت مصیبت میں  پھنسی رہے گی۔ ایک آقا اسے بیٹھنے کا کہے گا تو دوسرا اٹھنے کا حکم دے گا۔ تیسرا کوئی اور فرمائش کرے گا اور چوتھا کچھ اور کہے گا۔ وہ بے چارا ایک کو خوش کرنے کی کوشش کرے گا تو دوسرا ناراض ہو جائے گا۔ الغرض ایسے غلام کے لیے ایک وقت میں  اپنے سب آقاؤں  کو خوش رکھنا کسی طور بھی ممکن نہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی غلام کا ایک ہی آقا ہو تو اس کے لیے اپنے اس آقا کو خوش کرنا اور مطمئن رکھنا بہت آسان ہو گا۔ اس مثال کی اہمیت انتظامی امور کے حوالے سے بھی سمجھی جا سکتی ہے۔ اگر کسی ملک یا ادارے کا ایک مقتدر سربراہ ہو گا تو اس کا نظام درست رہے گا، لیکن جہاں  متوازی حکم چلانے والے کئی سربراہ ہوں  گے تو وہاں لازمی طور پر فساد مچ جائے گا۔

        اب اس مثال کی روشنی میں  شرک اور توحید کے معاملے کو دیکھیں  تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اگر تم ایک اللہ کے بندے بن کر رہو گے تو سکون اور چین سے رہو گے ۔ اگر مختلف شخصیات اور دیوی دیوتائوں  کے پجاری بنو گے تو مصیبت میں  پھنس جائو گے۔ ایک کو خوش کرو گے تو دوسرا ناراض ہو جائے گا۔ آخر کس کس معبود کی پوجا کرو گے؟ کتنے آقائوں  کے حضور نذرانے پیش کرو گے؟ اور کہاں  کہاں  جا کر پیشانی رگڑو گے؟ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں  سمجھتا ہے

ہزار سجدوں  سے دیتا ہے آدمی کو نجات!

        ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا:  ’’کیا یہ دونوں  برابر ہو سکتے ہیں  مثال میں؟‘‘

        اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ:  ’’کل ُتعریف اللہ کے لیے ہے، لیکن ان کی اکثریت علم نہیں  رکھتی۔‘‘

        یعنی بات واضح ہو گئی کہ توحید ہی صحیح راستہ ہے، لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں  یاجانتے بوجھتے ناسمجھ بنے بیٹھے ہیں۔

UP
X
<>