May 4, 2024

قرآن کریم > الزمر >sorah 39 ayat 31

ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِندَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ

پھر تم سب قیامت کے دن اپنے پروردگار کے پاس اپنا مقدمہ پیش کروگے

آیت ۳۱:  ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ:  ’’پھر تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس آپس میں  جھگڑو گے۔ ‘‘

        اس جھگڑے کی نوعیت کچھ  یوں  ہو گی کہ حضور شہادت دیں  گے کہ اے اللہ! میں  نے تیرا پیغام کما حقہ ان تک پہنچا دیا تھا۔ ممکن ہے وہاں  ان میں  سے کچھ لوگ انکار کریں  کہ نہیں  نہیں  یہ بات ان تک نہیں  پہنچی تھی اور بحث و تکرار کی نوبت آ جائے۔ ابلاغِ رسالت کے بارے میں  پیغمبروں  کی گواہی اور متعلقہ اُمتوں  کے افراد سے جواب طلبی کے حوالے سے سورۃ الاعراف کی یہ آیت بہت اہم ہے (فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ) ’’ ہم ان سے بھی پوچھیں  گے جن کی طرف رسولوں  کو بھیجا گیا تھا اور ان سے بھی پوچھیں  گے جنہیں  رسول بنا کر بھیجا تھا‘‘۔ چنانچہ وہاں  سب پیغمبروں  سے پوچھا جائے گا کہ کیا آپ لوگوں  نے ہمارا پیغام اپنی اپنی قوموں  تک پہنچا دیا تھا؟ جواب میں  تمام پیغمبر گواہی دیں  گے کہ اے اللہ ہم نے پہنچا دیا تھا۔ اسی لیے حضور اکرم نے حجۃ الوداع کے موقع پر موجود لوگوں  سے استفسار فرمایا تھا: اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُکہ کیا میں  نے اللہ کا پیغام تم لوگوں تک پہنچا دیا ؟ جواب میں  پورے مجمعے نے یک زبان ہو کر کہا تھا: نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَ اَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ!  کہ حضورؐ ہم گواہ ہیں  کہ آپؐ نے تبلیغ، امانت اور نصیحت کا حق ادا کر دیا! اس کے بعد حضور نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا: اللَّھُمَّ اشْھَدْ ! اللَّھُمَّ اشْھَدْ! اللَّھُمَّ اشْھَدْ! کہ اے اللہ! تو بھی گواہ رہ، یہ لوگ تسلیم کر رہے ہیں  کہ میں  نے ان تک تیرا پیغام پہنچاد یا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ((أَلَا لِیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ) ) کہ ا ب جو لوگ موجود ہیں  ان کا فرض ہے کہ یہ پیغام ان لوگوں  تک پہنچائیں جو یہاں  موجود نہیں  ہیں ۔ اس طرح آپؐ نے یہ فریضہ امت کی طرف منتقل فرما دیا ۔ اللہ کے رسول کے اس فرمان کے بعد یوں  سمجھیں  کہ اب یہ پوری امت اللہ کے رسول ؐکی رسول ہے(سورۂ یٰسٓکی آیت ۱۴ کے تحت اس اصطلاح کی وضاحت کی جا چکی ہے) ۔ یعنی اللہ کے رسول نے جو پیغام ان تک پہنچایا ہے اب انہوں  نے اسے پوری نوعِ انسانی تک پہنچانا ہے۔

        حضور کی اُمت کے اس اعزاز اور فریضہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں  دو مقامات پر فرمایا ہے، ہجرت سے متصلاً قبل سورۃ الحج میں اور ہجرت سے متصلاً بعد سورۃ البقرۃ میں۔ سورۃ الحج کی آخری آیت میں یوں  فرمایا: ہُوَ اجْتَبٰـاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَ ہُوَ سَمّٰاکُمُ الْمُسْلِمِیْن مِنْ قَـبْلُ وَفِیْ ہٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَـکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ: ’’اُس نے تمہیں  ُچن لیا ہے اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جائو اپنے جد امجد ابراہیم ؑ کی ملت پر۔ اسی نے تمہارا نام مسلم رکھا ، اس سے پہلے بھی (تمہارا یہی نام تھا) اور اس (کتاب)  میں بھی، تا کہ پیغمبر تم پر گواہ ہوں  اور تم لوگوں  پر گواہ ہو‘‘۔ سورۃ البقرۃ میں  اسی مضمون کو ان الفاظ میں  پھر سے دہرایا گیا (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا)  (آیت: ۱۴۳) ’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے، تا کہ تم لوگوں  پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو‘‘۔ دونوں مقامات پرالفاظ ایک سے آئے ہیں  صرف الفاظ کی ترتیب تبدیل ہوئی ہے۔

UP
X
<>