May 5, 2024

قرآن کریم > الزمر >sorah 39 ayat 42

اللَّهُ يَتَوَفَّى الأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

اﷲ تمام روحوں کو اُن کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے، اور جن کو ابھی موت نہیں آئی ہوتی، اُن کو بھی اُن کی نیند کی حالت میں (قبض کر لیتا ہے، ) پھرجن کے بارے میں اُس نے موت کا فیصلہ کر لیا، اُنہیں اپنے پاس روک لیتا ہے، اور دوسری رُوحوں کوا یک معین وقت تک کیلئے چھوڑ دیتا ہے۔ یقینا اس بات میں اُن لوگوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں

آیت ۴۲:  اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا:  ’’اللہ قبض کر لیتا ہے جانوں  کو ان کی موت کے وقت‘‘

        وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا:  ’’اور جن کی موت نہیں  آئی ہوتی ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں ۔ ‘‘

        یَتَوَفَّی (فعل مضارع)  وفی مادہ سے باب تفعّل ہے۔ اس کے معنی ہیں  کسی چیز کو پورا پورا قبضے میں لے لینا۔ سورۂ آل عمران کی آیت ۵۵ میں یہ لفظ حضرت عیسیٰ dکے حوالے سے آیا ہے اور وہاں  لغوی اعتبار سے اس کی تشریح کی جا چکی ہے۔ اس کے بعد قرآن حکیم کے اس مطالعہ کے دوران جہاں  بھی اس مادہ سے کوئی لفظ آیا میں  نے خصوصی طور پر اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے تا کہ اس لفظ کی بنیاد پر قادیانیوں  نے لوگوں  کے ذہنوں  میں  جو اشکالات پیدا کر رکھے ہیں  ان کا منطقی جواب مل سکے۔ چنانچہ اس کا مفہوم یوں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں  کی موت کے وقت ان کی جانوں  اور ان کے شعور کو قبض کر لیتا ہے۔

        نیند کی کیفیت میں  انسان کا فہم و شعوراور اختیار وارادہ سلب کر لیا جاتا ہے مگر روح موجود رہتی ہے۔ جبکہ موت کی حالت میں  روح اور شعور دونوں  چلے جاتے ہیں، صرف جسم پیچھے رہ جاتا ہے۔ چونکہ اس مادے میں کسی چیز کو مکمل اور پورے کا پورا لینے کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لیے لفظ تَوفِیّ کا بتمام و کمال اطلاق تو حضرت مسیح کے (روح، شعور اور جسم سمیت)  رفع آسمانی کے حوالے سے ہوتا ہے۔ جبکہ نیند کے حوالے سے یہ لفظ استعارۃً بولا جاتا ہے۔

        فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰٓی اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی:  ’’تو جس کی موت کا وہ فیصلہ کر چکا ہو اس کو اپنے پاس روکے رکھتا ہے اور دوسروں کو واپس بھیج دیتا ہے ایک وقت ِمعین ّ تک کے لیے۔ ‘‘

        یعنی سونے والا جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اس کا فہم وشعور اور اختیار و ارادہ واپس آ جاتا ہے اور ایک وقت معین یعنی اس کی موت تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ انسان کو ہر روز موت اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا مشاہدہ کراتا رہتا ہے۔

        اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّـتَفَکَّرُوْنَ:  ’’یقینا اس میں  نشانیاں  ہیں  ان لوگوں  کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں ۔‘‘

UP
X
<>