May 5, 2024

قرآن کریم > الزمر >sorah 39 ayat 69

وَأَشْرَقَتِ الأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاء وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لا يُظْلَمُونَ 

اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے چمک اُٹھے گی، اور نامۂ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا، اور انبیاء اور سب گواہوں کو حاضر کر دیا جائے گا، اور لوگوں کے درمیان بالکل برحق فیصلہ کیا جائے گا، اور اُن پر کوئی ظلم نہیں ہوگا

آیت ۶۹:  وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا: ’’اور زمین جگمگا اُٹھے گی اپنے رب کے نور سے‘‘

        اس وقت کی کیفیت کو سورۃ الفرقان میں یوں بیان فرمایا گیا ہے (وَیَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰٓئِکَۃُ تَنْزِیْلًا) ’’اور جس دن آسمان پھٹ جائے گا بادلوں کی مانند اور فرشتے نازل کیے جائیں گے لگاتار‘‘۔ پھر اللہ تعالیٰ زمین پر نزول فرمائیں گے اور فرشتے صفیں باندھے نیچے اتریں گے: (وَّجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا) (الفجر) ۔

        وَوُضِعَ الْکِتٰبُ: ’’اور اَعمال نامہ لا کر رکھ دیا جائے گا‘‘

        لوگوں کے اعمال نامے کا سر محشر لا کر رکھے جانے کی صورتِ حال کا نقشہ سورۃ الکہف کی آیت: ۴۹ میں یوں کھینچا گیا ہے: وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰاہَا: ’’ اور رکھ دیا جائے گا اعمال نامہ، چنانچہ تم دیکھو گے مجرموں کو کہ وہ لرزاں و ترساں ہوں گے اس سے جو کچھ اس میں ہو گااور کہیں گے: ہائے ہماری شامت! یہ کیسا اعمال نامہ ہے کہ اس نے نہ توکسی چھوٹی چیز کو چھوڑا ہے اور نہ کسی بڑی کو، مگر اس کو محفوظ کر کے رکھا ہے‘‘۔ اس کے بعد کی کیفیت کا نقشہ آگے دکھایا جا رہا ہے:

        وَجِایْٓئَ بِالنَّبِیّٖنَ وَالشُّہَدَآءِ: ’’اور لائے جائیں گے انبیاء اور شہید‘‘

        یہاں ’’شہید‘‘ سے مراد اوّلاً تو رسول ہیں کہ وہ اپنی اپنی اُمتوں پر سب سے پہلے گواہی دیں گے۔ سورۃ الحج کی آخری آیت میں حضور کی اپنی امت پر گواہی کے بارے میں فرمایا گیا: (لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ) ’’تا کہ پیغمبر تم پر گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ ہو‘‘۔ لیکن یہاں انبیاء کے ذکر کے بعد شہید کا لفظ خصوصی طور پر اس لیے لایا گیا ہے کہ وہاں ان لوگوں کو بھی گواہ کے طور پر بلایا جائے گا جو انبیاء و رسل fکی طرف سے تبلیغ کر تے رہے ہوں گے۔ جیسے عشرہ مبشرہ میں سے چھ چوٹی کے صحابہ وہ ہیں جو حضرت ابوبکرصدیق کی تبلیغ کے نتیجے میں ایمان لائے۔ اسی طرح حضور نے بہت سے علاقوں اور قبیلوں کی خواہش پر اپنے بعض صحابہj کو قرآن اور دین کی تعلیم کے لیے بھیجا۔ ایسے مبلغ اور معلم ّصحابہؓ زیادہ تر اصحابِ ُصفہّj میں سے تھے۔ ان صحابہؓ نے حضور کی طرف سے جن لوگوں کو دعوت دی تھی ، قیامت کے دن ان پر وہ گواہی دیں گے کہ اے اللہ !تیرے نبی نے تیرے دین کا جو پیغام ہم تک پہنچایا تھا ہم نے وہ ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔

        پھر حضور کے بعد دین کی دعوت و تبلیغ کی یہ ذمہ داری آپؐ کی امت کی طرف منتقل ہو گئی اور اس لحاظ سے آج ہم سب اس ذمہ داری کے مکلف ہیں ۔ چنانچہ ہمیں وہاں بطور گواہ بلایا جائے گا کہ محمد  کی طرف سے اللہ کا جو دین تم تک وراثتاً پہنچا تھا کیا تم لوگوں نے اسے آگے نوعِ انسانی تک پہنچا دیا تھا؟ اگر خدانخواستہ ہم یہ گواہی دینے میں ناکام رہے تو ان تمام لوگوں کی گمراہی اور ضلالت کا وبال بھی ہماری گردن پر آئے گا جو ہمارے حلقہ اثر اور دائرئہ اختیار میں تھے اور ہم انہیں دعوت نہیں دے سکے تھے۔ لیکن اگر ہم نے اپنی استطاعت کے مطابق یہ حق ادا کر دیا ہو گا تو ہم اس گواہی سے سرخرو ہوں گے اور وہ لوگ اپنے اعمال کے لیے اللہ کے ہاں خود جوابدہ ہوں گے۔ بہر حال اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت کا منظر دکھایا گیا ہے جو سر محشر سجائی جائے گی۔ تمام بنی نوع انسان کا اعمال نامہ بھی لا کر اس عدالت کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ پھر انبیاء و رُسل fاور دوسرے گواہوں کو بھی لا یا جائے گا۔

        وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْحَقِّ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ: ’’اور ان کے مابین فیصلہ کر دیا جائے گا حق کے ساتھ اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘

UP
X
<>