May 19, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 115

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا

اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے، اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے، اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے

آیت 115:   وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَـیَّنَ لَـہُ الْہُدٰی: ’’اور جو رسول کی مخالفت پر تل گیا‘ اس کے بعد کہ اُس پر ہدایت واضح ہو چکی‘ ‘

            یعنی جو کوئی خفیہ سازشوں اور چوری چھپے کی لگائی بجھائی کے ذریعے لوگوں کو اللہ کے رسول  کے خلاف بھڑکاتا ہے کہ دیکھو جی یہ اپنے لوگوں کو نواز رہے ہیں۔ جیسا کہ غزوۂ حنین میں ہوا تھا کہ آپ  نے مکہ مکرمہ کے ان مسلمانوں کو جو فتح مکہ ّکے بعد مسلمان ہوئے تھے‘ مالِ غنیمت میں سے ان کی دلجوئی کے لیے (جسے قرآن میں تالیف ِ قلوب کہا گیا ہے) ذرا زیادہ مال دے دیا تو اس پر بعض لوگوں نے شور مچا دیا کہ دیکھ لیا‘ جب کڑا وقت تھا‘ مشکل وقت تھا تو اسے ہم جھیلتے رہے‘ اب یہ اچھا وقت آیا ہے تو اپنے رشتہ دار یاد آ گئے ہیں۔ ظاہر ہے مکہ والے حضور  کے رشتہ دار تھے‘ قریش کا قبیلہ حضور  کا اپنا قبیلہ تھا۔ تو طرح طرح کی باتیں جو آج کے دور میں بھی ہوتی ہیں ویسی ہی باتیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں۔ یہ انسان کی فطرت ہے جو ہمیشہ ایک سی رہی ہے‘ اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوا۔  ّ

             وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ: ’’اور وہ اہل ِایمان کے راستے کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے‘ ‘

             نُوَلِّہ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہ جَہَنَّمَ: ’’ تو ہم بھی اس کو اُسی طرف پھیر دیتے ہیں جس طرف اُس نے خود رُخ اختیار کر لیا ہو اور ہم اسے پہنچائیں گے جہنم میں۔‘‘

             وَسَآء تْ مَصِیْرًا: ’’ اور وہ بہت ُبری جگہ ہے لوٹنے کی۔‘‘

            یہ آیت اس اعتبار سے بڑی اہم ہے کہ امام شافعی کے نزدیک اجماعِ اُمت ّکی سند اس آیت میں ہے۔ یہ بات تو بہت واضح ہے کہ اسلامی قوانین کے لیے بنیادی ماخذ قرآن ہے‘  پھر حدیث و سنت ہے۔ اسی طرح اجتہاد کا معاملہ بھی سمجھ میں آتا ہے‘ مگر اجماع کس چیز کا نام ہے؟ اس کا ذکر قرآن میں کہاں ہے؟ امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے اجماع کی دلیل قرآن سے تلاش کرنے کی کوشش کی اور قرآن کو شروع سے آخر تک تین سو مرتبہ پڑھا مگر مجھے اجماع کی کوئی دلیل نہیں ملی۔ پھر بالآخر تین سو ایک مرتبہ پڑھنے پر میری نظر جا کراس آیت پر جم گئی:  وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ۔  گویا اہل ِایمان کا جو راستہ ہے‘ جس پر اجماع ہو گیا ہو اہل ایمان کا‘ وہ خود اپنی جگہ بہت بڑی سند ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ  کا ارشاد ہے:  «اِنَّ اُمَّتِیْ لاَ تَجْتَمِعُ عَلٰی ضَلَالَۃٍ»   ’’میری اُمت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی۔‘‘   ِ

UP
X
<>