May 18, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 127

وَيَسْتَفْتُوْنَكَ فِي النِّسَاۗءِ ۭ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ ۙ وَمَا يُتْلٰي عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ فِيْ يَتٰمَي النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا تُؤْتُوْنَھُنَّ مَا كُتِبَ لَھُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْھُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الْوِلْدَانِ ۙوَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْيَتٰمٰي بِالْقِسْطِ ۭ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِه عَلِــيْمًا

اور (اے پیغمبر !) لوگ تم سے عورتوں کے بارے میں شریعت کا حکم پوچھتے ہیں ۔ کہہ دو کہ اﷲ تم کو ان کے بارے میں حکم بتاتا ہے، اور اِس کتاب (یعنی قرآن) کی جو آیتیں جو تم کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں وہ بھی ان یتیم عورتوں کے بارے میں (شرعی حکم بتاتی ہیں ) جن کو تم ان کا مقرر شدہ حق نہیں دیتے، اور ان سے نکاح کرنا بھی چاہتے ہو، نیز کمزور بچوں کے بارے میں بھی (حکم بتاتی ہیں ) اور یہ تاکید کرتی ہیں کہ تم یتیموں کی خاطر انصاف قائم کرو۔ اور تم جو بھلائی کا کام کروگے، اﷲ کو اس کا پورا پورا علم ہے

            اب جو آیات آ رہی ہیں ان میں خطاب مسلمانوں ہی سے ہے لیکن ان کی حیثیت ’’استدراک‘‘ کی ہے اور ان کا تعلق اس سورۃ کی ابتدائی آیات کے ساتھ ہے۔ سورۃ النساء کے آغاز میں خواتین کے مسائل کے بارے میں کچھ احکام نازل ہوئے تھے‘ جن میں یتیم بچیوں سے نکاح کے بارے میں بھی معاملات زیر بحث آئے تھے اور کچھ طلاق وغیرہ کے مسائل تھے۔ اس میں کچھ نکات لوگوں کے لیے وضاحت طلب تھے‘ لہٰذا ایسے نکات کے بارے میں  مسلمانوں کی طرف سے کچھ سوالات کیے گئے اور حضور  سے کچھ وضاحتیں طلب کی گئیں۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحتیں نازل کی ہیں اور اس سوال کا حوالہ دے کر بات شروع کی گئی ہے جس کا جواب دیا جانا مقصود ہے ۔    َ

آیت ۱۲۷ وَیَسْتَفْتُوْنَکَ فِی النِّسَآء: ’’(اے نبی) یہ لوگ آپ سے عورتوں کے معاملہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔‘‘

             قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْہِنَّ: ’’کہہ دیجیے کہ اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے (وضاحت کرتا ہے) ان کے بارے میں‘‘

             وَمَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ فِی الْْـکِتٰبِ فِیْ یَتٰمَی النِّسَآء: ’’ اورجو تمہیں (پہلے سے) سنایا جا رہا ہے کتاب میں یتیم لڑکیوں کے بارے میں‘‘

            یہ اسی سورۃ کی آیت: 3  کی طرف اشارہ ہے۔ آیت زیر نظر کے ساتھ مل کر اُس آیت کی تشریح بھی بالکل واضح ہو گئی اور ثابت ہو گیا کہ وہاں جو فرمایا گیا تھا  وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْْیَتٰمٰی:تو اس سے اصل مراد ’’یَتٰمَی النِّسَآئِ‘‘ تھا۔یعنی اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں سے شادی کرو گے تو ان کے ساتھ انصاف نہیں کر سکو گے(اس لیے کہ ان کی طرف سے کوئی نہیں جو ان کے حقوق کا پاسدار ہو اور تم سے باز ُپرس کر سکے)  تو پھر ان سے شادی مت کرو‘ بلکہ دوسری عورتوں سے شادی کر لو۔ اگرایک سے زائد نکاح کرنا چاہتے ہو تو اپنی پسند کی دوسری عورتوں سے‘  دو دو‘ تین تین یا چار چارسے کر لو:  «فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَــکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ»۔ مگر ایسی بے سہارا یتیم لڑکیوں سے نکاح نہ کرو‘ کیونکہ ـ:

             الّٰتِیْ لاَ تُؤْتُوْنَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْکِحُوْہُنَّ: ’’ جن کو تم دیتے نہیں ہو جو اللہ نے اُن کے لیے لکھ دیا ہے اور چاہتے ہو کہ اِن سے نکاح بھی کرو‘‘

            یتیم سمجھ کر مہر ادا کیے بغیر ان سے نکاح کر نے کے خواہش مند رہتے ہو۔

             وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْوِلْدَانِ: ’’اور (اسی طرح) وہ بچے جو کمزور ہیں (جن پر ظلم ہوتا ہے)‘‘

             وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰی بِالْقِسْطِ: ’’اور یہ (ہم نے تمہیں اتنے تفصیلی احکام دیے ہیں) کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف پر کاربند رہو۔‘‘

             وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِہ عَلِیْمًا: ’’اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس سے واقف ہے۔‘‘

            وہ تمہاری نیتوں کو جانتا ہے۔ اُس نے شریعت کے احکام نازل کر دیے ہیں‘ بنیادی ہدایات تمہیں دے دی گئی ہیں۔ اب اضافی چیز تو بس یہی ہے کہ تمہاری نیّت صاف ہونی چاہیے۔ کیونکہ  وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ. (البقرۃ: 220) اللہ جانتا ہے کہ کون حقیقت میں شرارتی ہے اور کس کی نیت صحیح ہے۔

UP
X
<>