May 18, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 128

وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلاَ جُنَاْحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ وَأُحْضِرَتِ الأَنفُسُ الشُّحَّ وَإِن تُحْسِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا 

اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بیزاری کا اندیشہ ہو تو ان میاں بیوی کیلئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ آپس کے اتفاق سے کسی قسم کی صلح کر لیں ۔ اور صلح کر لینا بہتر ہے۔ اور اِنسانوں کے دل میں (کچھ نہ کچھ) لالچ کا مادہ تو رکھ ہی دیا گیا ہے۔ اور اگر احسان اور تقویٰ سے کام لو تو جو کچھ تم کروگے اﷲ اس سے پوری طرح باخبر ہے

آیت 128:      وَاِنِ امْرَاَۃٌ خَافَتْ مِنْم بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا: ’’اور اگر کسی عورت کو اندیشہ ہو اپنے شوہر سے زیادتی یا بے رُخی کا‘‘

            ایک ’’نشوز‘‘ تو وہ تھا جس کا تذکرہ اسی سورۃ کی آیت: 34 میں عورت کے لیے ہوا تھا:  وَالّٰتِی تَخَافُوْنَ نَشُوْزَھُنَّ.  ’’اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو‘‘۔  یعنی وہ عورتیں‘ وہ بیویاں جو خاوندوں سے سرکشی کرتی ہیں‘ ان کے احکام نہیں مانتیں‘ ان کی اطاعت نہیں کرتیں‘ اپنی ضد پر اَڑی رہتی ہیں‘ ان کے بارے میں حکم تھا کہ اُن کے ساتھ کیسا معاملہ کیا جائے۔ اب یہاں ذکر ہے اُس ’’نشوز‘‘ کا جس کا اظہار خاوند کی طرف سے ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ خاوند اپنی بیوی پر ظلم کر رہا ہو‘ اس کے حقوق ادا کرنے میں پہلو تہی کر رہا ہو‘ اپنی ’’قوّامیت‘‘  کے حق کو غلط طریقے سے استعمال کر رہا ہو‘ بے جا رعب ڈالتا ہو‘ دھونس دیتا ہو‘ یا بلا وجہ ستاتا ہو‘ تنگ کرتا ہو‘ اور تنگ کر کے مہر معاف کروانا چاہتا ہو‘ یا اگر بیوی کے والدین اچھے کھاتے پیتے ہوں تو ہو سکتا ہے اسے بلیک میل کر کے اس کے والدین سے دولت ہتھیانا چاہتا ہو۔ یہ ساری خباثتیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اورعورتیں بیچاری ظلم و ستم کی اس چکی میں پستی رہتی ہیں۔ آیت زیر نظر میں اس مسئلے کی وضاحت کی گئی ہے کہ اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے اندیشہ ہو جائے کہ وہ زیادتی کرے گا‘ یا اگر شوہر زیادتی کر رہا ہو اور وہ بیوی کے حقوق ادا نہ کر رہا ہو‘ یا اس کی طرف میلان ہی نہ رکھتا ہو‘ کوئی نئی شادی رچا لی ہو اور اب ساری توجہ نئی دلہن کی طرف ہو۔

             فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَآ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَہُمَا صُلْحًا: ’’تو ان دونوں پر کوئی الزام نہیں ہو گا کہ وہ آپس میں صلح کر لیں۔‘‘

            یہاں صلح سے مراد یہ ہے کہ سارے معاملات باہم طے کر کے عورت خلع لے لے۔ لیکن خلع لینے میں‘ جیسا کہ ہم پڑھ چکے ہیں جبکہ عورت کو مہر چھوڑنا پڑے گا‘ اور اگر لیا تھا تو کچھ واپس  کرنا پڑے گا۔

             وَالصُّلْحُ خَیْرٌ وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ: ’’ اور صلح بہرحال بہتر ہے۔ البتہ انسانی نفس پر لالچ مسلط رہتا ہے۔‘‘

            مرد  چاہے گا کہ میرا پورا مہر واپس کیا جائے جبکہ عورت چاہے گی کہ مجھے کچھ بھی واپس نہ کرنا پڑے۔ یہ مضامین سورۃ البقرۃ میں بیان ہو چکے ہیں۔

             وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا: ’’اوراگر تم احسان کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو جان لو کہ اللہ تمہارے تمام اعمال سے با خبر ہے۔‘‘

            تم مرد ہو‘ مردانگی کا ثبوت دو‘  اس معاملے میں اپنے اندر نرمی پیدا کرو‘ بیوی کا حق فراخ دلی سے ادا کرو۔

UP
X
<>