May 18, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 129

وَلَن تَسْتَطِيعُواْ أَن تَعْدِلُواْ بَيْنَ النِّسَاء وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِيلُواْ كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِن تُصْلِحُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا 

اور عورتوں کے درمیان مکمل برابری رکھنا تو تمہارے بس میں نہیں ، چاہے تم ایساچاہتے بھی ہو، البتہ کسی ایک طرف پورے پورے نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو ایسا بناکر چھوڑ دو جیسے کوئی بیچ میں لٹکی ہوئی چیز۔ اور اگر تم اصلاح اور تقویٰ سے کام لو گے تو یقین رکھو کہ اﷲ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے

آیت 129:   وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ:  ’’اور  تمہارے لیے ممکن ہی نہیں کہ تم عورتوں کے درمیان پورا پورا انصاف کر سکو‘ چاہے تم اس کے لیے کتنے ہی حریص ہو‘‘

            سورۃ کے آغاز (آیت: 3)  میں فرمایا گیا تھا: فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً: یعنی اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم اپنی بیویوں میں (اگر ایک سے زائد ہیں) عدل نہیں کر سکو گے تو پھرایک پر ہی اکتفا کرو‘ دوسری شادی مت کرو۔ اگر تمہیں کلی طور پر اطمینان ہے‘  اپنے اوپر اعتماد ہے کہ تم عدل کر سکتے ہو تب دوسری شادی کرو‘  ورنہ نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کچھ چیزیں تو گنتی اور ناپ تول کی ہوتی ہیں‘ ان میں تو عدل کرنا ممکن ہے‘ لیکن جو قلبی میلان ہے یہ تو انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ حضور نے اپنی تمام ازواج کے لیے ہر چیز گِن گِن کر طے کی ہوئی تھی۔ شب بسری کے لیے سب کی باریاں مقر ر تھیں۔ دن میں بھی آپ ہر گھر میں چکر لگاتے تھے۔ عصر اور مغرب کے درمیان تھوڑی تھوڑی دیر ہر زوجہ محترمہ کے پاس ٹھہرتے تھے۔ اگر کہیں زیادہ دیر ہو جاتی تو گویا کھلبلی مچ جاتی تھی کہ آج وہاں زیادہ دیر کیوں ٹھہر گئے؟ یہ چیزیں انسانی معاشرے میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ حضور کی ازواجِ مطہرات  کا آپس کا معاملہ بہت اچھا تھا‘ لیکن سوکناپے کے اثرات کچھ نہ کچھ تو ہوتے ہیں‘ یہ عورت کی فطرت ہے‘  جو اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ تو اس لیے فرمایا کہ مکمل انصاف کرنا تمہارے بس میں نہیں۔ اس سے مراد دراصل قلبی میلان ہے ۔ ایک حدیث میں بھی اس کی وضاحت ملتی ہے کہ نبی اکرم  فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میں نے ظاہری چیز وں میں پورا پورا عدل کیا ہے‘ باقی جہاں تک میرے دل کے میلان کا تعلق ہے تو مجھے امید ہے کہ اس بارے میں تُو مجھ سے مواخذہ نہیں کرے گا۔ اسی لیے یہاں فرمایا گیا کہ تم چاہو بھی تو عدل نہیں کر سکتے۔

             فَلاَ تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ: ’’تو ایسا نہ ہو کہ تم ایک ہی کی طرف پورے کے پورے جھک جاؤ کہ دوسری بیوی کومعلّق کر کے چھوڑ دو۔‘‘

            دوسری بیوی اس طرح معلّق ہو کر نہ رہ جائے کہ اب وہ نہ شوہر والی ہے اور نہ آزاد ہے۔ اس سے خاوند کا گویا کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔

             وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا: ’’اور اگر تم اصلاح کر لو اور تقویٰ کی روش اختیار کروتو اللہ تعالیٰ بھی غفور اور رحیم ہے۔‘‘

 

            اب اگلی آیت میں طلاق کے معاملے میں ایک اہم نکتہ بیان ہو رہا ہے۔ طلاق یقینا ایک نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے‘ اس لیے رسول اللہ  نے فرمایا: «اَبْغَضُ الْـحَلَالِ اِلَی اللّٰہِ تَـعَالٰی الطَّلَاقُ»  ’’حلال چیزوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ نا پسندیدہ چیز طلاق ہے‘‘۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اس کو بسا اوقات کفر تک پہنچا دیا جاتا ہے۔  لڑائیاں ہو رہی ہیں‘ مقدمات چل رہے ہیں‘ مزاجوں میں موافقت نہیں ہے‘ ایک دوسرے کو کوس رہے ہیں‘ دن رات کا جھگڑا ہے‘ لیکن طلاق نہیں دینی۔یہ طرزِ عمل نہایت احمقانہ ہے اور شریعت کی منشاء کے بالکل خلاف بھی۔ اس آیت میں آپ دیکھیں گے کہ ایک طرح سے طلاق کی ترغیب دی گئی ہے۔

 

UP
X
<>