May 18, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 130

وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلاًّ مِّن سَعَتِهِ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا 

اور اگر دونوں جداہو ہی جائیں تو اﷲ اپنی (قدرت اور رحمت کی) وسعت سے دونوں کو (ایک دوسرے کی حاجت سے) بے نیاز کر دے گا۔ اﷲ بڑی وسعتوں والا، بڑی حکمت والا ہے

ٓیت 130:    وَاِنْ یَّـتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰہُ کُلاًّ مِّنْ سَعَتِہ: ’’اوراگر وہ (میاں بیوی) دونوں علیحدہ ہو جائیں گے تو اللہ ان کو اپنی کشادگی سے غنی کر دے گا۔‘‘

            ہو سکتا ہے کہ اس عورت کو بھی کوئی بہتر رشتہ مل جائے جو اس کے ساتھ مزاجی موافقت رکھنے والا ہو اور اس شوہر کو بھی اللہ تعالی  کوئی بہتر بیوی دے دے۔ میاں بیوی کا ہر وقت لڑتے رہنا‘ دنگا فساد کرنا اور عدمِ موافقت کے باوجود طلاق کا اختیار (option) استعمال نہ کرنا‘ یہ سوچ ہمارے ہاں ہندو معاشرت اور عیسائیت کے اثرات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ہندومت کی طرح عیسائیت میں بھی طلاق حرام ہے۔ در اصل انجیل میں تو شریعت اور قانون ہے ہی نہیں‘ صرف اخلاقی تعلیمات ہیں۔ چنانچہ جس طرح نبی اکرم  نے فرمایا: «اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلَاقُ» ایسی ہی کوئی بات حضرت مسیح نے بھی فرمائی تھی کہ کوئی شخص بلاوجہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے کہ معاشرے میں اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔ طلاق شدہ عورت کی دوسری شادی نہ ہونے کی صورت میں اس کے آوارہ ہو جانے کا امکان ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس کا وبال اسے بلاوجہ طلاق دینے والے کے سر جائے گا۔ لیکن یہ محض اخلاقی تعلیم تھی‘ کوئی قانونی شِق نہیں تھی ۔عیسائیت کا قانون تو وہی ہے جو تورات کے اندر ہے اور حضرت مسیح  فرما گئے ہیں کہ یہ نہ سمجھو کہ میں قانون کو ختم کرنے آیا ہوں‘ بلکہ حضرت موسی کی شریعت تم پر بد ستور نافذ رہے گی۔ قانون بہر حال قانون ہے‘ اخلاقی ہدایات کو قانون کا درجہ تو نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن عیسائیت میں اس طرح کی اخلاقی تعلیمات کو قانون بنا دیا گیا‘ جس کی وجہ سے بلا جواز پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ چنانچہ ان کے ہاں کوئی شخص اپنی بیوی کو اُس وقت تک طلاق نہیں دے سکتا جب تک اس پر بدکاری کا جرم ثابت نہ کرے۔ لہٰذا وہ طلاق دینے کے لیے طرح طرح کے طریقے استعمال کر کے بیوی کو پہلے بد کردار بناتے ہیں‘ پھر اس کا ثبوت فراہم کرتے ہیں‘ تب جا کر اس سے جان چھڑاتے ہیں۔ تو شریعت کے درست اور آسان راستے اگر چھوڑ دیے جائیں تو پھر اسی طرح غلط اور مشکل راستے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں عدمِ موافقت کی صورت میں طلاق کے بارے میں ایک طرح کی ترغیب نظر آتی ہے۔

             وَکَانَ اللّٰہُ وَاسِعًا حَکِیْمًا: ’’اور اللہ بڑی وسعت رکھنے والا حکمت والاہے۔‘‘

            اللہ کے خزانے بڑے وسیع ہیں اور اس کا ہر حکم حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔

UP
X
<>