May 18, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 135

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاء لِلّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقَيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْهَوَى أَن تَعْدِلُواْ وَإِن تَلْوُواْ أَوْ تُعْرِضُواْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

اے ایمان والو ! انصاف قائم کرنے والے بنو، اﷲ کی خاطر گواہی دینے والے، چاہے وہ گواہی تمہارے اپنے خلاف پڑتی ہو، یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔ وہ شخص (جس کے خلاف گواہی دینے کا حکم دیا جارہا ہے) چاہے امیر ہو یا غریب، اﷲ دونوں قسم کے لوگوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ لہٰذا ایسی نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلنا جو تمہیں انصاف کرنے سے روکتی ہو۔ اور اگر تم تو ڑ مروڑ کروگے (یعنی غلط گواہی دو گے) یا (سچی گواہی دینے سے) پہلو بچاؤ گے تو (یاد رکھنا کہ) اﷲ تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے

ٓیت 135:   یٰٓــایُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآء لِلّٰہِ: ’’اے اہل ایمان کھڑے ہو جاؤ پوری قوت کے ساتھ عدل کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے گواہ بن کر‘‘  َ

            یہ آیت قرآن کریم کی عظیم ترین آیات میں سے ہے۔ سورہ آل عمران (آیت: 18) میں ہم پڑھ آئے ہیں:  شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّــہ لَآ اِلٰــہَ اِلاَّ ہُوَ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَــآئِمًا م بِالْقِسْطِ.  ’’اللہ گواہ ہے کہ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ اور سارے فرشتے اور اہل ِعلم بھی اس پر گواہ ہیں‘ وہ عدل کا قائم کرنے والا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ اس زمین پر عدل قائم کرنا چاہتا ہے‘  اس کے لیے وہ اپنے دین کا غلبہ چاہتا ہے‘ اور اس عظیم کام کے لیے اُس کے کارندے اور سپاہی اہل ایمان ہی ہیں۔ انہی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اس دنیا میں عدل قائم کرے گا۔ لیکن اہل ِایمان کو اس عظیم مقصد کے لیے کوشش کرنی ہو گی‘ جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہو گا‘ ایثار کرنا ہو گا‘ قربانیاں دینی ہوں گی‘ تب جا کر کہیں دین غالب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بہت ہی اہم معاملہ ہے۔ معاشرے میں عدل و قسط کے قیام کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو ’’اللہ کے گواہ‘‘ کہا گیا ہے۔ عدلِ اجتماعی (Social Justice) پر اسلام نے جتنا زور دیا ہے بدقسمتی سے آج ہمارا مذہبی طبقہ اتنا ہی اس سے بے بہرہ ہے۔ آج کے مسلم معاشروں میں سرے سے شعور ہی نہیں کہ عدلِ اجتماعی کی بھی کوئی اہمیت اسلام میں ہے۔اسلامی قوانین اور حدود و تعزیرات کے نفاذ کی اہمیت تو سب جانتے ہیں‘ لیکن باطل نظام کی نا انصافیاں‘  یہ جاگیردارانہ ظلم و ستم اور غریبوں کا استحصال (exploitation) کس طرح ختم ہو گا؟ سرمایہ دار غریبوں کا خون چوس چوس کر روز بروز موٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ نظام ایک ایسی چکی ہے جو آٹا پیس پیس کر ایک ہی طرف ڈالتی جا رہی ہے‘ جبکہ دوسری طرف محرومی ہی محرومی ہے۔ یہاںدولت کی تقسیم کا نظام ہی غلط ہے‘ ایک طرف وسائل کی ریل پیل ہے تو دوسری طرف بھوک ہی بھوک۔ ایک طرف امیر امیر تر ہو رہے ہیں تو دوسری طرف غریب غریب تر‘ اور غربت تو ایسی لعنت ہے جو انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے‘ ازروئے حدیث ِ نبوی:  «کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَکُوْنَ کُفْرًا»  لہٰذا سب سے پہلے وہ نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے جس میں عدل ہو‘ انصاف ہو‘ جس میں ضمانت دی گئی ہو کہ ہر شہری کی بنیادی ضروریات کی کفالت ہو گی۔ کفالت ِعامہ کی یہ ضمانت نظامِ خلافت میں دی جاتی ہے۔ جب نظام درست ہو جائے تو پھر حدود و تعزیرات کا نفاذ ہو۔ پھر جو کوئی چوری کرے اس کا ہاتھ کاٹا جائے۔ لیکن موجودہ حالات میں اگر اسلامی قوانین نافذ ہوں گے تو ان کا فائدہ الٹا لٹیروں اور حرام خوروں کو ہو گا‘ بلیک مارکیٹنگ کرنے والے ان سے مستفید ہوں گے۔ جنہوں نے حرام خوری سے دولت جمع کر رکھی ہے‘  وہ خوب پاؤں پھیلا کر سوئیں گے۔  چور کا ہاتھ کٹے گا تو انہیں چوری کا ڈر رہے گا نہ ڈاکے کا۔ تو اصل کام نظام کا بدلنا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ (معاذ اللہ) شریعت نافذ نہ کی جائے‘ بلکہ مقصد یہ ہے کہ شریعت نافذ کرنے سے پہلے نظام (system) کو بدلا جائے‘ دین کا نظام قائم کیا جائے اور پھر اس نظام  کو قائم رکھنے کے لیے‘ اس کو مستحکم اور مضبوط کرنے کے لیے‘ اسے مستقل طور پر چلانے کے لیے قانون نافذ کیا جائے۔ کیونکہ قانون ہی کسی نظام کے استحکام کا ذریعہ بنتا ہے‘ قانون کے صحیح نفاذ سے ہی کوئی نظام مضبوط ہوتا ہے۔

            یہی مضمون آگے چل کر سورۃ المائدہ (آیت: 8) میں بھی آئے گا‘ لیکن وہاں اس کی ترتیب بدل گئی ہے۔ وہاں ترتیب اس طرح ہے:  یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بِالْقِسْطِ۔ اس ترتیب کے بدلنے میں ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ اللہ اور عدل و قسط گویا مترادف الفاظ ہیں۔ ایک جگہ حکم ہے ’’گواہ بن جاؤ اللہ کے‘‘ اور دوسری جگہ فرمایا: ’’گواہ بن جاؤ قِسط کے‘‘ ۔ ایک جگہ فرمایا: ’’کھڑے ہو جاؤ قسط (عدل و انصاف) کے لیے‘‘ جبکہ دوسری جگہ ارشاد ہوا کہ ’’کھڑے ہو جاؤ اللہ کے لیے‘‘۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور قسط کے الفاظ جو ایک دوسرے کی جگہ آئے ہیں‘ آپس میں مترادف ہیں۔

             وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ: ’’خواہ یہ (انصاف کی بات اورشہادت) تمہارے اپنے خلاف ہو یا تمہارے والدین کے یا تمہارے قرابت داروں کے۔‘‘

            ایک مؤمن کا تعلق عدل وانصاف اور قسط کے ساتھ ہونا چاہیے‘ رشتہ داری کے ساتھ نہیں۔ یہاں پر حرفِ جار کے بدلنے سے معانی میں ہونے والی تبدیلی مدّ نظر رہے ۔  «شہادۃ علٰی» کا مطلب ہے لوگوں پر گواہی‘ اُن کے خلاف گواہی‘ جبکہ «شہادۃ  لِلّٰہ» کا مطلب ہے اللہ کے لیے گواہی‘ لہٰذا  «شُہَدَآء لِلّٰہ» کے معنی ہیں اللہ کے گواہ۔

             اِنْ یَّــکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِہِمَا: ’’چاہے وہ شخص غنی ہے یا فقیر‘ اللہ ہی دونوں کا پشت پناہ ہے۔‘‘

            اللہ ہر کسی کا کفیل ہے‘  تم کسی کے کفیل نہیں ہو۔ تمہیں تو فیصلہ کرنا ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہونا چاہیے‘ تمہیں کسی کی جانب داری نہیں کرنی‘ نہ ماں باپ کی‘ نہ بھائی کی اور نہ خود اپنی۔ ایک چور دروازہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کا حق تو نہیں بنتا‘ لیکن یہ غریب ہے‘ لہٰذا اس کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے۔ فرمایا کہ فریق ِمعاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب‘ تمہیں اس کی جانب داری نہیں کرنی۔ یہ حکم ہمیں واضح طور پر ہمارا فرض یاد دلاتا ہے کہ ہم سب اللہ کے گواہ بن کر کھڑے ہوجائیں۔ ہر حق بات جو اللہ کی طرف سے ہو اس کے علمبردار بن جائیں اور اس حق کو قائم کرنے کے لیے تن‘ من اور دھن کی قربانی دینے کے لیے اپنی کمر کس لیں۔

             فَلاَ تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا وَاِنْ تَلْوآ اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا: ’’ تو تم خواہشات کی پیروی نہ کرو‘  مبادا کہ تم عدل سے ہٹ جاؤ۔ اگر تم زبانوں کو مروڑو گے یا اعراض کرو گے تو (یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے پوری طرح با خبر ہے۔‘‘

            یعنی اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا حق گوئی سے پہلو تہی کی تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ کو اس کی پوری پوری خبر ہے۔ ’’تَلووا‘‘ کا صحیح مفہوم آج کی زبان میں ہو گاchewing your words۔ یعنی اس طریقے سے زبان کو حرکت دینا کہ بات کہنا بھی چاہتے ہیں لیکن کہہ بھی نہیں پا رہے ہیں‘ حق بات زبان سے نکالنا نہیں چاہتے‘ غلط بات نکل نہیں رہی ہے۔ یا پھر ویسے ہی حق بات کہنے والی صورتِ حال کا سامنا کرنے سے کنی کترا رہے ہیں‘ موقع سے ہی بچ نکلنا چاہتے ہیں۔ لیکن یاد رکھو کہ ایسی کسی کوشش سے انسانوں کو تو دھوکہ دیا جا سکتا ہے مگر اللہ تو تمہاری ہر سوچ‘ ہر نیت اور ہر حرکت سے با خبر ہے۔

            اس کے بعد جو مضمون آ رہا ہے وہ شاید اس سورۂ مبارکہ کا اہم ترین مضمون ہے۔

UP
X
<>