May 18, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 136

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِيَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا 

اے ایمان والو ! اﷲ پر ایمان رکھو، اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اﷲ نے اپنے رسول پر اُتاری ہے اور ہر اس کتا ب پر جو اس نے پہلے اُتاری تھی۔ اور جو شخص اﷲ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابو ں کا، اس کے رسولوں کا اور یومِ آخرت کا انکار کرے وہ بھٹک کر گمراہی میں بہت دور جا پڑا ہے

آیت 136:   یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ: ’’اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر‘ اُس کے رسول پر اور اُس کتاب پر جو اُس نے نازل فرمائی اپنے رسول پر اور اُس کتاب پر جو اُس نے پہلے نازل فرمائی۔‘‘

            ایمان والوں سے یہ کہنا کہ ایمان لاؤ بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے۔ ’’اے ایمان والو‘ ایمان لاؤ!‘‘ چہ معنی دارد؟ اس کا مطلب ہے کہ اقرار باللّسان والا ایمان تو تمہیں موروثی طور پر حاصل ہو چکا ہے۔ مسلمان ماں باپ کے گھر پیدا ہو گئے تو وراثت میں ایمان بھی مل گیا‘یا یہ کہ جب پورا قبیلہ اسلام لے آیا تو اس میں پکے مسلمانوں کے ساتھ کچھ کچے مسلمان بھی شامل ہو گئے۔ انہوں نے بھی کہا : ’’اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰــہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘۔ اس طرح ایمان ایک درجے (اقرار باللّسان) میں تو حاصل ہو گیا۔یہ ایمان کا قانونی درجہ ہے۔ پیچھے اسی سورۃ (آیت: 94) میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ اگر کوئی شخص راستے میں ملے اور وہ اپنا اسلام ظاہر کرے تو تم اس کویہ نہیں کہہ سکتے ہو کہ تم مؤمن نہیں ہو‘ کیونکہ جس نے زبان سے کلمہ ٔ شہادت ادا کر لیا تو قانونی طور پر وہ مؤمن ہے۔ لیکن کیا حقیقی ایمان یہی ہے؟ نہیں‘ بلکہ حقیقی ایمان ہے یقین ِقلبی۔ اس لیے فرمایا: ’’اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر…‘‘۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے ہم اِس آیت کا ترجمہ اس طرح کریں گے کہ ’’اے اہل ِایمان ! ایمان لاؤ اللہ پر جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے‘ مانو رسول  کو جیسا کہ ماننے کا حق ہے…‘‘ اور یہ حق اُسی وقت ادا ہو گا جب اللہ اور اس کے رسول پر ایمان دل میں گھر کر گیا ہو۔ جیسے صحابہ کرام  کے بارے میں سورۃ الحجرات (آیت: 7) میں فرمایا گیا:  وَلٰــکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَــیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّـنَہ فِیْ قُلُوْبِکُمْ:’’اللہ نے ایمان کو تمہارے نزدیک محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں ُمزین ّکر دیا ہے‘‘۔ آگے چل کر اسی سورۃ (آیت: 14) میں کچھ لوگوں کے بارے میں یوں فرمایا:  قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ.  ’’یہ بد ّو لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ اے نبی ان سے کہہ دیجیے کہ تم ہر گز ایمان نہیں لائے ہو‘ ہاں یوں کہہ سکتے ہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں‘ لیکن ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا‘‘ ۔چنانچہ اصل ایمان وہ ہے جو دل میں داخل ہو جائے۔ یہ درجہ تصدیق بالقلب کا ہے۔ یاد رہے کہ آیت زیر مطالعہ میں دراصل روئے سخن منافقین کی طرف ہے۔ وہ زبانی ایمان تو لائے تھے لیکن وہ ایمان اصل ایمان نہیں تھا‘ اس میں دل کی تصدیق شامل نہیں تھی۔ ( عربی زبان سے واقفیت رکھنے والے حضرات یہ نکتہ بھی نوٹ کریں کہ قرآن کے لیے اس آیت میں لفظ «نَزَّلَ» اور تورات کے لیے «اَنْزَلَ» استعمال ہوا ہے ۔)

             وَمَنْ یَّــکْفُرْ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاًم بَعِیْدًا:  ’’اور جو کوئی کفر (انکار) کرے گا اللہ کا‘ اس کے فرشتوں کا‘ اس کی کتابوں کا‘ اس کے رسولوں کا اور قیامت کے دن کا‘ تو وہ گمراہ ہو گیا اور گمراہی میں بہت دُور نکل گیا۔‘‘

            یہ تمام آیات بہت اہم ہیں اور مفہوم کے لحاظ سے ان میں بڑی گہرائی ہے۔

UP
X
<>