May 18, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 137

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ ثُمَّ كَفَرُواْ ثُمَّ آمَنُواْ ثُمَّ كَفَرُواْ ثُمَّ ازْدَادُواْ كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلاَ لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلاً 

جو لوگ ایمان لائے، پھر کافر ہوگئے، پھر ایمان لائے، پھر کافر ہوگئے، پھر کفر میں بڑھتے ہی چلے گئے، اﷲ ان کو بخشنے والا نہیں ہے، اور نہ انہیں راستے پر لانے والا ہے

آیت 137:   اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا: ’’بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے‘  پھر کفر کیا‘ پھر ایمان لائے‘ پھر کفر کیا‘ پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے‘‘

            یہاں کفر سے مراد کفر حقیقی‘ کفر معنوی‘ کفر باطنی یعنی نفاق ہے‘ قانونی کفر نہیں۔ کیونکہ منافقین کے ہاں کفر و ایمان کے درمیان جو بھی کشمکش اور کھینچا تانی ہو رہی تھی‘  وہ اندر ہی اندر ہورہی تھی‘ لیکن ظاہری طور پر تو ان لوگوں نے اسلام  کا انکار نہیں کیا تھا۔

             لَّمْ یَـکُنِ اللّٰہُ لِیَغْفِرَ لَہُمْ وَلاَ لِیَہْدِیَہُمْ سَبِیْلاً:  ’’ تو اللہ نہ ان کی مغفرت کرنے والا ہے اور نہ وہ انہیں راہِ راست دکھائے گا۔‘‘

            واضح رہے کہ منافقت کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ ایک ہی دن میں کوئی شخص منافق ہو گیا ہو۔ منافقین میں ایک تو شعوری منافق تھے‘ جو باقاعدہ ایک فیصلہ کر کے اپنی حکمت ِعملی اختیار کرتے تھے‘ جیسے ہم سورہ آل عمران میں ان کی پالیسی کے بارے میں پڑھ آئے ہیں کہ صبح ایمان کا اعلان کریں گے‘ شام کو پھر کافر ہو جائیں گے‘  مرتد ہو جائیں گے۔ تو معلوم ہوا کہ ایمان انہیں نصیب ہوا ہی نہیں اور انہیں بھی معلوم تھا کہ وہ مومن نہیں ہیں۔ وہ دل سے جانتے تھے کہ ہم ایمان لائے ہی نہیں ہیں‘  ہم تو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ یہ شعوری منافقت ہے۔

            دوسری طرف کچھ لوگ غیر شعوری منافق تھے ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام قبول تو کیا تھا‘  ان کے دل میں دھوکہ دینے کی نیت بھی نہیں تھی‘ لیکن انہیں اصل صورتِ حال کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ پھولوں کی سیج ہے‘ لیکن ان کی توقعات کے بالکل برعکس وہ نکلا کانٹوں والا بستر۔ اب انہیں قدم قدم پر رکاوٹ محسوس ہو رہی ہے‘  ارادے میں پختگی نہیں ہے‘ ایمان میں گہرائی نہیں ہے‘ لہٰذا ان کا معاملہ ’’ہرچہ بادا باد‘ ‘ والا نہیں ہے ۔ ایسے لوگوں کا حال ہم سورۃ البقرۃ کے آغاز (آیت: 20) میں پڑھ آئے ہیں کہ کچھ روشنی ہوئی تو ذرا چل پڑے‘ اندھیرا ہوا تو کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ کچھ ہمت کی‘  دو چار قدم چلے‘ پھر حالات نا موافق دیکھ کر ٹھٹک گئے‘ رک گئے‘ پیچھے ہٹ گئے۔ نتیجہ یہ ہوتا تھاکہ لوگ ان کو ملامت کرتے کہ یہ تم کیا کرتے ہو؟ تو اب انہوں نے یہ کیا کہ جھوٹے بہانے بنانے لگے‘ اور پھر اس سے بھی بڑھ کر جھوٹی قسمیں کھانی شروع کر دیں‘ کہ خدا کی قسم یہ مجبوری تھی‘ اس لیے میں رُک گیا تھا‘ ایسا تو نہیں کہ میں جہاد میں جانا نہیں چاہتا تھا۔ میری بیوی مر رہی تھی‘ اُسے چھوڑ کر میں کیسے جا سکتا تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی جھوٹی قسمیں کھانا ایسے منافقین کا آخری درجے کا حربہ ہوتا ہے۔ تو ایمان اور کفر کا یہ معاملہ ان کے ہاں یوں ہی چلتا رہتا ہے‘ اگرچہ اوپر ایمان باللّسان کا پردہ موجود رہتا ہے۔ جب کوئی شخص ایمان لے آیا اور اُس نے ارتداد کا اعلان بھی نہیں کیا تو قانونی طور پر تو وہ مسلمان ہی رہتا ہے‘ لیکن جہاں تک ایمان بالقلب کا تعلق ہے تو وہ  ’’مُُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِک‘‘  کی کیفیت میں ہوتا ہے اور اس کے اندر ہر وقت تذبذب اور اہتزاز (oscillation) کی کیفیت رہتی ہے کہ ابھی ایمان کی طرف آیا‘ پھر کفر کی طرف گیا‘ پھر ایمان کی طرف آیا‘ پھر کفر کی طرف گیا۔ اس کی مثال بعینہ اُس شخص کی سی ہے جو دریا یا تالاب کے گہرے پانی میں ڈوبتے ہوئے کبھی نیچے جا رہا ہے‘ پھر ہاتھ پاؤں مارتا ہے تو ایک لمحے کے لیے پھر اوپر آ جاتا ہے مگر اوپر ٹھہر نہیں سکتا اور فوراً نیچے چلا جاتا ہے۔ بالآخر نیچے جا کر اوپر نہیں آتا اور ڈوب جاتا ہے۔ بالکل یہی نقشہ ہے جو اس آیت میں پیش کیا جارہا ہے۔ اگلی آیت میں کھول کر بیان کر دیا گیا ہے کہ یہ کن لوگوں کا تذکرہ ہے۔

UP
X
<>