May 6, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 141

الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللَّهِ قَالُواْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ قَالُواْ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً 

 (اے مسلمانو !) یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے (انجام کے) انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں ۔ چنانچہ اگر تمہیں اﷲ کی طرف سے فتح ملے تو (تم سے) کہتے ہیں کہ ’’ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟‘‘ اور اگر کافروں کو (فتح) نصیب ہو تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ’’ کیا ہم نے تم پر قابو نہیں پالیا تھا؟ اور کیا (اس کے باوجود) ہم نے تمہیں مسلمانوں سے نہیں بچایا ؟ ‘‘ بس اب تو اﷲ ہی قیامت کے دن تمہارے اور ان کے درمیان فیصلہ کرے گا، اور اﷲ کافروں کیلئے مسلمانوں پر غالب آنے کا ہر گز کوئی راستہ نہیں رکھے گا

آیت 141:   الَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بکُمْ:  ’’وہ لوگ جو تمہارے لیے انتظار کی حالت میں ہیں۔‘‘

            منافق تمہارے معاملہ میں گردشِ زمانہ کے منتظر ہیں۔ دیکھنا چاہتے ہیں کہ حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یہ لوگ ’’تیل دیکھو  تیل کی دھار دیکھو‘‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں اور نتیجے کے انتظار میں ہیں کہ آخری فتح کس کی ہوتی ہے۔ اس لیے ان کا طے شدہ منصوبہ ہے کہ دونوں طرف کچھ نہ کچھ تعلقات رکھو‘  تا کہ وقت جیسا بھی آئے‘ جو بھی صورت حال ہو‘ ہم اس کے مطابق اپنے بچاؤ کی کچھ صورت بنا سکیں۔

             فَاِنْ کَانَ لَــکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰہِ قَالُــوْآ اَلَـمْ نَــکُنْ مَّعَکُمْ: ’’تو اگر تم لوگوں کو اللہ کی طرف سے کوئی فتح حاصل ہو جائے تویہ کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟‘‘

            اگر اللہ تعالیٰ کی مدد سے مسلمان فتح حاصل کر لیتے ہیں تو وہ آ جائیں گے باتیں بناتے ہوئے کہ ہم بھی تو آپ کے ساتھ تھے‘ مسلمان تھے‘ مالِ غنیمت میں سے ہمارا بھی حصہ نکالیے ۔

             وَاِنْ کَانَ لِلْکٰفِرِیْنَ نَصِیبٌ: ’’اور اگر کوئی حصہ پہنچ جائے کافروں کو‘‘

            کبھی وقتی طور پر کفار کو فتح حاصل ہو جائے‘ جنگ میں ان کا پلڑا بھاری ہو جائے۔

             قَالُــوْٓا اَلَــمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَنَمْنَعْکُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ: ’’تو وہ کہیں گے (اپنے کافر ساتھیوں سے) کیا ہم نے تمہارا گھیراؤ نہیں کر لیا تھا؟ اور ہم نے بچایا نہیں تم  کو مسلمانوں سے؟‘‘

             یعنی ہم نے تو آپ کو مسلمانوں سے بچانے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا‘ ہم تو آپ کے لیے آڑ بنے ہوئے تھے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ہو کر جنگ کرنے آئے تھے؟ نہیں‘ ہم تو اس لیے آئے تھے کہ وقت آنے پر مسلمانوں کے حملوں سے آپ کو بچا سکیں۔

             فَاللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ: ’’تو اللہ ہی فیصلہ کرے گا تمہارے مابین قیامت کے دن۔‘‘

             وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً: ’’ اور اللہ اہل ِایمان کے مقابلے میں کافروں کو راہ یاب نہیں کرے گا۔‘‘

             جیسا کہ اس سے پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سورۃ النساء کا بڑا حصہ منافقین سے خطاب پر مشتمل ہے‘ اگرچہ اُن سے براہِ راست خطاب میں «یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ نَافَقُوْا» کے الفاظ کہیں استعمال نہیں ہوئے‘ بلکہ انہیں «یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا» کے الفاظ سے ہی مخاطب کیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ بھی ایمان کے دعوے دار تھے‘ ایمان کے مدّعی تھے‘ قانونی طور پر مسلمان تھے۔ یہ ایک طویل مضمون ہے جو آئندہ آیاتِ مبارکہ میں انجام پذیر (conclude) ہو رہا ہے۔

UP
X
<>