May 6, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 142

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُواْ إِلَى الصَّلاَةِ قَامُواْ كُسَالَى يُرَآؤُونَ النَّاسَ وَلاَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلاَّ قَلِيلاً 

یہ منافق اﷲ کے ساتھ دھوکا بازی کرتے ہیں ، حالانکہ اﷲ نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ اور جب یہ لوگ نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو کسمساتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں ، لوگوں کے سامنے دِکھاوا کرتے ہیں ، اور اﷲ کو تھوڑا ہی یاد کرتے ہیں

آیت 142:  اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ: ’’ یقینا منافق کوشش کر رہے ہیں اللہ کو دھوکہ دینے کی‘‘

            یہ مضمون سورۃ البقرہ کے دوسرے رکوع میں بھی آ چکا ہے۔ مُخادَعۃ بابِ مفاعلہ کا مصدر ہے۔ اس باب میں کسی کے مقابلے میں کوشش کے معنی شامل ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں دو فریقوں میں مقابلہ ہوتا ہے اور پتا نہیں ہوتا کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا۔ لہٰذا اس کا صحیح ترجمہ ہوگا کہ ’’وہ دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ اس کے جواب میں اللہ کی طرف سے فرمایا گیا:

             وَہُوَ خَادِعُہُمْ: ’’اور وہ ان کو دھوکہ دے کر رہے گا۔‘‘

            خَادِع ثلاثی مجرد سے اسمِ فاعل ہے اور یہ نہایت زور دار تاکید کے لیے آتا ہے‘ اس لیے ترجمہ میں تاکیدی الفاظ آئیں گے۔ یہاں منافقین کے لیے دھوکہ والا پہلو یہ ہے کہ اللہ نے ان کو جو ڈھیل دی ہوئی ہے اس سے وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم کامیاب ہو رہے ہیں‘ ہمارے اوپر ابھی تک کوئی آنچ نہیں آئی‘ کوئی پکڑ نہیں ہوئی‘ کوئی گرفت نہیں ہوئی‘ ہم دونوں طرف سے بچے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے وہ اپنی اس ڈھیل کی وجہ سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اور درحقیقت یہی دھوکہ ہے جو اللہ کی طرف سے ان کو دیا جا رہا ہے۔ یعنی اللہ نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔

             وَاِذَا قَامُوْآ اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالی: ’’اور جب وہ کھڑے ہوتے ہیں نماز کے لیے تو کھڑے ہوتے ہیں بڑی کسل مندی کے ساتھ‘‘

            یہ منافقین جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ طبیعت میں بشاشت نہیں ہے‘  آمادگی نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنا بھی ضروری ہے لہٰذا مجبوراً کھڑے ہو جاتے ہیں۔  قَامَ فعل ہے اور اس کے معنی ہیں کھڑے ہونا‘ جبکہ قَائِم اس سے اسم فاعل ہے۔ مختلف زبانوں میں عام طور پر verb کے بعد prepositions  کی تبدیلی سے معنی اورمفہوم بدل جاتے ہیں۔ مثلاً انگریزی میں to give  ایک خاص مصدر ہے۔ اگر to give up ہو تو معنی یکسر بدل جائیں گے۔ پھر اگر یہ  to give in ہو تو بالکل ہی الٹی بات ہو جائے گی۔ اسی طرح عربی میں بھی حروفِ جار کے تبدیل ہونے سے معانی بدل جاتے ہیں۔ لہٰذا اگر قَامَ عَلٰی ہو‘ جیسے  الرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآء.  میں ہے تو اس کے معنی ہوں گے حاکم ہونا‘ سربراہ ہونا‘ کسی کے حکم کا نافذ ہونا۔ لیکن اگر قَامَ اِلٰی  ہو (جیسے آیت زیر نظر میں ہے) تو اس کا مطلب ہو گا کسی شے کے لیے کھڑے ہونا‘ کسی شے کی طرف کھڑے ہونا‘ کوئی کام کرنے کے لیے اٹھنا‘ کوئی کام کرنے کا ارادہ کرنا۔ اس سے پہلے ہم قَامَ  ’بِ‘ کے ساتھ بھی پڑھ چکے ہیں: قَوّٰمَیْنَ بِالْقِسْطِ اور  قَائِمًا بِالْقِسْطِ۔ یہاں اس کے معنی ہیں کسی شے کو قائم کرنا۔ تو آپ نے ملاحظہ کیا کہ حروفِ جار (prepositions)  کی تبدیلی سے کسی فعل کے اندر کس طرح اضافی معانی پیدا ہو جاتے ہیں۔

             یُرَآؤُوْنَ النَّاسَ: ’’ محض لوگوں کو دکھانے کے لیے‘ ‘

             وَلاَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلاَّ قَلِیْلاً: ’’ اوراللہ کا ذکر نہیں کرتے مگر بہت کم ۔‘‘

            یعنی ذکرِ الٰہی جو نماز کا اصل مقصد ہے:  وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ   لِذِکْرِیْ. (طٰہٰ) وہ انہیں نصیب نہیں ہوتا۔ مگر ممکن ہے اس بے دھیانی میں کسی وقت کوئی آیت بجلی کے کڑکے کی طرح کڑک کر ان کے شعور میں کچھ نہ کچھ اثرات پیدا کر دے ۔

UP
X
<>