May 6, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 148

لاَّ يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا 

اﷲ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائی علانیہ زبان پر لائی جائے، اِلا یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو، اور اﷲ سب کچھ سنتا، ہر بات جانتا ہے

             اب اس سورۃ کے آخری حصے میں فلسفہ دین کے بہت اہم بنیادی نکات کی کچھ تفصیل آئے گی۔ اس ضمن میں پہلی بات تو تمدنی اور معاشرتی معاملات ہی سے متعلق ہے۔ معاشرے کے اندر کسی ُبری بات کا چرچا کرنا بالفعل کوئی اچھی بات نہیں ہے‘ لیکن اس میں ایک استثناء رکھا گیا ہے‘ اور وہ ہے مظلوم کا معاملہ۔ اگر مظلوم کی زبان سے ظلم کے ردِّ عمل کے طور پر کچھ نازیبا کلمات‘ جلے کٹے الفاظ بھی نکل جائیں تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف کردے گا۔

آیت 148: لاَ یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلاَّ مَنْ ظُلِمَ:  ’’اللہ کو بالکل پسند نہیں ہے کہ کسی بُری بات کو بلند آواز سے کہا جائے‘  سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہے۔‘‘

            جس کا دل دکھا ہے‘ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے‘  نہ صرف یہ کہ اس کے جواب میں اس کی زبان سے نکلنے والے کلمات پر گرفت نہیں‘ بلکہ مظلوم کی دعا کو بھی قبولیت کی سند عطا ہوتی ہے۔ کسی فارسی شاعر نے اس مضمون کو اس طرح ادا کیا ہے :  

 بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگامِ دعا کر دن

اِجابت  از  درِ  حق بہر   ِاستقبال  می  آید

کہ مظلوم کی آہوں سے ڈرو کہ اس کی زبان سے نکلنے والی فریاد ایسی دعا بن جاتی ہے جس کی قبولیت خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا استقبال کرنے کے لیے عرش سے آتی ہے۔

             وَکَانَ اللّٰہُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا:  ’’ اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

            اسے سب معلوم ہے کہ جس کے دل سے یہ آواز نکلی ہے وہ کتنا دکھی ہے۔ اس کے احساسات کتنے مجروح ہوئے ہیں۔

UP
X
<>