May 7, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 149

إِن تُبْدُواْ خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُواْ عَن سُوَءٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا 

اگر تم کوئی نیک کام علانیہ کر و یا خفیہ طور پر کرو، یا کسی برائی کو معاف کردو تو (بہتر ہے، کیونکہ) اﷲ بہت معاف کرنے والا ہے (اگرچہ سزادینے پر) پوری قدرت رکھتا ہے

آیت 149:   اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْہُ: ’’ اگر تم بھلائی کو ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ‘‘

            جہاں تک تو خیر کا معاملہ ہے تم اسے بلند آواز سے کہو‘ ظاہر کرو یا چھپاؤ برابر کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے خیر تو ہر حال میں خیر ہی ہے‘ عیاں ہو یا خفیہ۔

             اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا: ’’یا تم برائی کو معاف کر دیا کرو تو یقیناً اللہ بھی معاف فرمانے والا‘  قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘

            اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو معاف کر دینا یقینا نیکی کا ایک اونچا درجہ ہے۔ اس لیے یہاں ترغیب کے انداز میں مظلوم سے بھی کہا جا رہا ہے کہ اگرچہ تمہیں چھوٹ ہے‘ تمہاری بدگوئی کی بھی تم پر کوئی گرفت نہیں‘ لیکن زیادتی کی تلافی کا اس سے اعلیٰ اور بلند تر درجہ بھی ہے‘  تم اس بلند درجے کو حاصل کیوں نہیں کرتے؟ وہ یہ کہ تم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو معاف کر دو۔ اس کے ساتھ اللہ کی قدرت کا ذکر بھی ہوا ہے کہ انسان تو بسا اوقات بدلہ لینے کی طاقت نہ ہونے کے باعث معاف کرنے پر مجبور بھی ہو جاتا ہے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے‘  قدیر ہے‘ وہ تو جب چاہے‘  جیسے چاہے (there & then) خطاکار کو فوراً سزا دے کر حساب چکا سکتا ہے۔ لیکن اتنی قدرت کے باوجود بھی وہ معاف فرما دیتا ہے۔

             آئندہ آیات میں پھر وحدت الادیان جیسے اہم مضمون کا تذکرہ ہونے جا رہا ہے اور اس سلسلے میں یہاں تمام غلط  نظریات کی جڑ کاٹی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ بات زیر ِبحث آچکی ہے کہ فلسفہ ٔوحدتِ ادیان کا ایک حصہ صحیح ہے۔ وہ یہ کہ اصل (origin) سب ادیان کی ایک ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ مختلف ادیان کی موجودہ شکلوں میں بھی یک رنگی اور ہم آہنگی ہے تو اس سے بڑی حماقت‘  جہالت‘ ضلالت اور گمراہی کوئی نہیں۔ 

UP
X
<>