May 6, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 150

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً 

جولوگ اﷲ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اﷲ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کچھ (رسولوں) پر تو ہم ایمان لاتے ہیں اور کچھ کا انکار کرتے ہیں ، اور (اس طرح) وہ چاہتے ہیں کہ (کفر اور ایمان کے درمیان) ایک بیچ کی راہ نکال لیں

            یہاں پر اب کانٹے کی بات بتائی جا رہی ہے کہ دین میں جس چیز کی وجہ سے بنیادی خرابی پیدا ہوتی ہے وہ اصل میں کیا ہے۔ وہ غلطی یا خرابی ہے اللہ اور رسولوں میں تفریق! ایک تفریق تو وہ ہے جو رسولوں کے درمیان کی جاتی ہے‘ اور دوسری تفریق اللہ اور رسول  کو علیحدہ علیحدہ کر دینے کی شکل میں سامنے آتی ہے‘ اور یہ سب سے بڑی جہالت ہے۔ فتنۂ انکارِ حدیث اور انکارِ سنت اسی جہالت و گمراہی کا شاخسانہ ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو اہل ِقرآن سمجھتے ہیں اور ان کا نظریہ ہے کہ رسول کا کام قرآن پہنچا دینا تھا‘ سو انہوں نے پہنچا دیا‘ اب اصل معاملہ ہمارے اور اللہ کے درمیان ہے۔ اللہ کی کتاب عر بی زبان میں ہے‘ ہم اس کو خود سمجھیں گے اور اس پر عمل کریں گے۔ رسول  نے اپنے زمانے میں مسلمانوں کو جو اس کی تشریح سمجھائی تھی اور اُس زمانے کے لوگوں نے اسے قبول کیا تھا‘ وہ اُس زمانے کے لیے تھی۔  گویا رسول ؐ کی تشریح کوئی دائمی چیز نہیں‘ دائمی شے صرف قرآن ہے۔ اس طرح انہوں نے اللہ اور رسول  کو جدا کر دیا۔  یہاں اسی گمراہی کا ذکر آ رہا ہے۔

آیت 150:   اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہ: ’’یقینا وہ لوگ جو کفر کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسولوں کا اور وہ چاہتے ہیں کہ تفریق کر دیں اللہ اور اس کے رسولوں کے مابین‘‘

            اکبر کے ’’دین ِالٰہی‘‘  کا بنیادی فلسفہ بھی یہی تھا کہ بس دین تو اللہ ہی کا ہے‘ رسول  کی نسبت ضروری نہیں‘ کیونکہ جب دین کی نسبت رسول کے ساتھ ہو جاتی ہے تو پھر دین رسول کے ساتھ منسوب ہو جاتا ہے کہ یہ دین ِموسی  ہے‘ یہ دین ِعیسی   ہے‘ یہ دین ِمحمد  ہے۔ اگر رسولوں کا یہ تفرقی عنصر (differentiating factor) درمیان سے نکال دیا جائے تو مذاہب کے اختلافات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اللہ تو سب کا مشترک (common) ہے‘ چنانچہ جو دین اُسی کے ساتھ منسوب ہو گا وہ دین ِالٰہی ہو گا۔

             وَیَـقُوْلُوْنَ نُــؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَـکْفُرُ بِبَعْضٍ:  ’’اور وہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ کو مانیں گے اور کچھ کو نہیں مانیں گے‘‘

            یعنی اللہ کو مانیں گے‘ رسولوں کا ماننا ضروری نہیں ہے۔ اللہ کی کتاب کو مانیں گے‘ رسول  کی سنت کا ماننا کوئی ضروری نہیں ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔

             وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً: ’’اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کے بین بین ایک راستہ نکال لیں۔‘‘

            اللہ کو ایک طرف کر دیں اور رسول کو ایک طرف ۔

UP
X
<>