May 4, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 157

 وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا 

اور یہ کہا کہ : ’’ ہم نے اﷲ کے رسول عیسیٰ ابنِ مریم کو قتل کر دیا تھا ‘‘ حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا تھا، نہ اُنہیں سولی دے پائے تھے، بلکہ انہیں اشتباہ ہو گیا تھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے، وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں ، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم حاصل نہیں ہے، اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کر پائے

آیت 157:    وَّقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ:  ’’اور بسبب ان کے یہ کہنے کے کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ ابن مریم کو اللہ کے رسول کو!‘‘

            یعنی اللہ کے رسول کو قتل کر دیا! یہاں یہ ’’رَسُوْلَ اللّٰہِ‘‘ کے الفاظ اُن کے نہیں ہیں‘ بلکہ یہ اللہ کی طرف سے ہیں استعجابیہ نشان (sign of exclamation) کے ساتھ‘ کہ اچھا ان کا دعویٰ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول کو قتل کیا ہے! جبکہ رسول تو قتل ہو ہی نہیں سکتا۔ اللہ کا تو فیصلہ ہے‘  ایک طے شدہ امر ہے‘ اللہ کی طرف سے لکھا ہوا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آکر رہیں گے  کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ.  (المجادلۃ: 21) تو ان کی یہ جرأت کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسول کو قتل کیا ہے!

             وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَـبُوْہُ وَلٰــکِنْ شُبِّہَ لَـہُمْ: ’’حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا اور نہ ہی اسے سولی دی‘ بلکہ اس کی شبیہہ بنا دی گئی ان کے لیے۔‘‘

            معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا اور ایک شخص کی حضرت مسیح  جیسی صورت بنا دی گئی‘ ان کے ساتھ مشابہت کر دی گئی ۔ چنانچہ انہوں نے جس کو مسیح سمجھ کر سولی پر چڑھایا‘ وہ مسیح  نہیں تھا‘ ان کی جگہ کوئی اور تھا ۔ انجیل برنباس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کا نام ’’یہودا اسخریوطی‘‘ (Judas Iscariot) تھا اور وہ آپ  کے حواریوں میں سے تھا۔ ویسے اُس کی نیت کچھ اور تھی‘ اُس میں بد نیتی بہر حال نہیں تھی (تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے) لیکن چونکہ اُس نے آپ  کو گرفتار کرایا تھا‘ چنانچہ اس گستاخی کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے اس کی شکل حضرت مسیح  جیسی بنا دی اور حضرت مسیح  کی جگہ وہ پکڑا گیا اور سولی چڑھا دیا گیا۔

             وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ:  ’’اور جو لوگ اس کے بارے میں اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں وہ یقینا شکوک و شبہات میں ہیں۔‘‘

            انہیں خود پتا نہیں کہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟

             مَا لَہُمْ بِہ مِنْ عِلْمٍ اِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا: ’’اُن کے پاس اس ضمن میں کوئی علم نہیں ہے سوائے اس کے کہ گمان کی پیروی کر رہے ہیں‘ اور یہ بات یقینی ہے کہ انہوں نے اسے قتل نہیں کیا۔‘‘

            حضرت مسیح  ہرگز قتل نہیں ہوئے اور نہ ہی آپ   کو صلیب پر چڑھایا گیا۔

UP
X
<>