May 6, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 46

 مِّنَ الَّذِينَ هَادُواْ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَكِن لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلاَ يُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلِيلاً

یہودیوں میں سے کچھ وہ ہیں جو (تورات) کے الفاظ کو ان کے موقع محل سے ہٹا ڈالتے ہیں ، اور اپنی زبانوں کو توڑ مروڑکر اور دین میں طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے ہیں ، ’’ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا ‘‘ اور ’’ اسمع غیر مُسمَعٍ ‘‘ اور ’’ رَاعِنَا ‘‘ حالانکہ اگر وہ یہ کہتے کہ ’’ سمعنا واطعنا ‘‘ اور ’’ اسمع وانظرنا ‘‘ تو ان کیلئے بہتر اور راست بازی کا راستہ ہوتا، لیکن ان کے کفر کی وجہ سے اﷲ نے ان پر پھٹکار ڈال رکھی ہے، اس لئے تھوڑے سے لوگوں کے سوا وہ ایمان نہیں لاتے

 آیت 46:  مِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہ: ’’ان یہودیوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو کلام کو اس کے اصل مقام و محل سے پھیرتے ہیں‘‘

             وَیَـقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا: ’’وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور ہم نے نہیں مانا‘‘

            یہود اپنی زبانوں کو توڑ مروڑکر الفاظ کو کچھ کا کچھ بنا دیتے۔ رسول اللہ  کی خدمت میں حاضر ہوتے تو احکامِ الٰہی سن کر کہتے  سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا۔ بظاہر وہ اہل ایمان کی طرح  سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا (ہم نے سنا اور ہم نے قبول کیا) کہہ رہے ہوتے لیکن زبان کو مروڑ کر حقیقت میں سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا کہتے۔

             وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ: ’’اور (کہتے ہیں) سنیے‘ نہ سنا جائے۔‘‘

            وہ حضور  کی مجلس میں آپ کو مخاطب کرکے کہتے ذرا ہماری بات سنیے! ساتھ ہی چپکے سے کہہ دیتے کہ آپ سے سنا نہ جائے‘ ہمیں آپ کو سنانا مطلوب نہیں ہے۔ اس طرح وہ شانِ رسالت میں گستاخی کے مرتکب‘ہوتے۔

             وَّرَاعِنَا لَــیًّا بِاَلْسِنَتِہِمْ: ’’اور (کہتے ہیں)  رَاعِنَا  اپنی زبانوں کو موڑ کر‘‘

            «رَاعِنَا» کا مفہوم تو ہے ’’ہماری رعایت کیجیے‘‘ لیکن وہ اسے کھینچ کر  رَاعِیْنَا بنا دیتے۔ یعنی اے ہمارے چرواہے!

             وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ: ’’اور دین میں طعن کرنے کے لیے۔‘‘

            یہود اپنی زبانوں کو توڑ مروڑ کر ایسے کلمات کہتے اور پھر دین میں یہ عیب لگاتے کہ اگر یہ شخص واقعی نبی ہوتا تو ہمارا فریب اس پر ظاہر ہو جاتا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے فریب کو ظاہر کر دیا۔

             وَلَـوْ اَنَّـہُمْ قَالُـوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَـکَانَ خَیْرًا لَّــہُمْ وَاَقْوَمَ: ’’اور اگر وہ یہ کہتے کہ ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی‘ اور آپ ہماری بات سن لیجیے‘ اور ذراہمیں مہلت دیجیے‘ تو یہ ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا اور بہت درست اور سیدھی بات ہوتی‘‘

             وَلٰــکِنْ لَّــعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِہِمْ: ’’لیکن اللہ نے تو ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کر دی ہے‘‘

             فَلاَ یُــؤْمِنُوْنَ اِلاَّ قَلِیْلاً: ’’تو اب وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں مگر شاذ ہی کوئی۔‘‘ 

UP
X
<>