April 27, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 5

وَلاَ تُؤْتُواْ السُّفَهَاء أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَاماً وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا 

اور ناسمجھ (یتیموں) کو اپنے وہ مال حوالے نہ کرو جن کو اﷲ نے تمہارے لئے زندگی کا سرمایہ بنایا ہے ؛ ہاں ان کو اِن میں سے کھلاؤ اور پہناؤ، اور ان سے مناسب انداز میں بات کر لو

 آیت 5:    وَلاَ تُؤْتُوا السُّفَہَـآء اَمْوَالَـکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَـکُمْ قِیٰمًا: ’’اور مت پکڑا دو ناسمجھوں کو اپنے وہ مال جن کو اللہ نے تمہارے گزران کا ذریعہ بنایا ہے‘‘

            معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو نادانوں اور ناسمجھ لوگوں (سُفَہاء) پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں جو ابھی سن شعور کو نہیں پہنچے۔ ایسے بچے اگر یتیم ہو جائیں تو وہ وراثت میں ملنے والے مال کو اللوں تللوں میں اڑا سکتے ہیں۔ لہٰذا یہاں ہدایت کی گئی ہے کہ ایسے مال کے بے جا استعمال کی معاشرتی سطح پر روک تھام ہونی چاہیے۔ یہ تصور ناقابل قبول ہے کہ میرا مال ہے‘ میں جیسے چاہوں خرچ کروں! چنانچہ اس مال کو ’’اَمْوَالَـکُمْ‘‘کہا گیا کہ یہ اصل میں معاشرے کی مشترک بہبود کے لیے ہے۔ اگرچہ انفرادی ملکیت ہے‘ لیکن پھر بھی اسے معاشرے کی مشترک بہبود میں خرچ ہونا چاہیے۔     ِ

             وَّارْزُقُوْہُمْ فِیْہَا وَاکْسُوْہُمْ:’’ہاں انہیں اس میں سے کھلاتے اور پہناتے رہو‘‘

             وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا: ’’اور ان سے بات کیا کرو اچھے انداز میں۔‘‘

            اسی اُصول کے تحت برطانوی دور کے ہندوستان میں of wards Court مقرر کر دیے جاتے تھے۔ اگر کوئی بڑا جاگیردار یا نواب فوت ہو جاتا اوریہ اندیشہ محسوس ہوتا کہ اس کا بیٹا آوارہ ہے اور وہ سب کچھ اڑا دے گا‘ ختم کر دے گا تو حکومت اس میراث کو اپنی حفاظت میں لے لیتی اور ورثاء کے لیے اس میں سے سالانہ وظیفہ مقرر کر دیتی۔ باقی سب مال و اسباب جمع رہتا تھا تاکہ یہ ان کی آئندہ نسل کے کام آ سکے۔

UP
X
<>