May 2, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 59

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللَّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً 

اے ایمان والو ! اﷲ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحبِ اختیار ہوں ، اُن کو بھی۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہو جائے تو اگر واقعی تم اﷲ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہوتو اُسے اﷲ اور رسول کے حوالے کر دو۔ یہی طریقہ بہترین ہے اور اس کا انجام بھی سب سے بہتر ہے

            اگلی آیت میں تیسری ہدایت مقننہ (Legislature) کے بارے میں آ رہی ہے کہ اسلامی ریاست کی دستوری بنیاد کیا ہو گی۔ جدید ریاست کے تین ستون انتظامیہ (Executive)‘ عدلیہ(Judiciary) اور مقننہ (Legislature) گنے جاتے ہیں۔ پہلی آیت میں انتظامیہ اور عدلیہ کے ذکر کے بعد اب دوسری آیت میں مقننہ کا ذکر ہے کہ قانون سازی کے اصول کیا ہوں گے۔ فرمایا:

 آیت 59:   یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ: ’’اے اہل ایمان! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی‘‘   ّ  َ

            یعنی کوئی قانون اللہ اور اس کے رسول کی منشا کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔ اصولی طور پر یہ بات پاکستان کے دستور میں بھی تسلیم کی گئی ہے:

"No Legislation will be done repugnant to the Quran and the Sunnah."

لیکن اس کی تنفیذ و تعمیل کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے‘ لہٰذا اس وقت ہمارا دستور منافقت کا پلندہ ہے۔ اس آیت کی رو سے اللہ کے احکام اور اللہ کے رسول  کے احکام قانون سازی کے دو مستقل ذرائع (sources) ہیں۔ اس طرح یہاں منکرین ِسنت کی نفی ہوتی ہے جو مؤخر الذکر کا انکار کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی فرمایا:

             وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ:’’اور اپنے میں سے اولوالامر کی بھی (اطاعت کرو)۔‘‘

            یہاں بہت عجیب اسلوب ہے کہ تین ہستیوں کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے: اللہ کی‘ رسول کی اور اولوالامر کی‘ لیکن پہلے دو کے لیے ’’اَطِیْعُوْا‘‘ کا لفظ آیا ہے‘ جبکہ تیسرے کے لیے نہیں ہے۔ ایک اسلوب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ’’اَطِیْعُوْا‘‘ایک مرتبہ آ جاتا اور اس کا اطلاق تینوں پر ہو جاتا: ’’یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔ اس طرح تینوں برابر ہو جاتے۔ دوسرا اسلوب یہ ہو سکتا تھا کہ ’’اَطِیْعُوا‘‘ تیسری مرتبہ بھی آ تا:’’یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاَطِیْعُوْا اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ‘‘۔ لیکن قرآن نے جو اسلوب اختیار کیا ہے کہ ’’اَطِیْعُوا‘‘ دو کے ساتھ ہے‘ تیسرے کے ساتھ نہیں ہے‘ اس سے اولو الامر کی اطاعت کا مرتبہ (status) متعین ّہو جاتا ہے۔ ایک تو ’’مِنْکُمْ‘‘ کی شرط سے واضح ہو گیا کہ اولو الامر تم ہی میں سے ہونے چاہئیں‘ یعنی مسلمان ہوں۔ غیر مسلم کی حکومت کو ذہناً تسلیم کرنا اللہ سے بغاوت ہے۔ وہ کم از کم مسلمان تو ہوں۔ پھر یہ کہ متذکرہ بالا اسلوب سے واضح ہو گیا کہ ان کی اطاعت مطلق‘  دائم اور غیر مشروط  نہیں۔ اللہ اور رسول کی اطاعت مطلق‘ دائم‘ غیر مشروط اور غیر محدود ہے‘ لیکن صاحب ِامر کی اطاعت اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کے تابع ہو گی۔ وہ جو حکم بھی لائے اسے بتانا ہو گا کہ میں کتاب و سنت سے کیسے اس کا استنباط کر رہا ہوں۔  گویا اسے کم از کم یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ حکم کتاب و سنت کے خلاف نہیں ہے۔ ایک مسلمان ریاست میں قانون سازی اسی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔ دورِ جدید میں قانون ساز ادارہ کوئی بھی ہو‘ کانگریس ہو‘ پارلیمنٹ ہو یا مجلس ملی ہو‘ وہ قانون سازی کرے گی‘ لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ یہ قانون سازی قرآن وسنت سے متصادم نہ ہو۔

             فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ: ’’پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں اختلافِ رائے ہو جائے‘‘

            ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ اولو الامر کہے کہ میں تو اسے عین اسلام کے مطابق سمجھتا ہوں‘ لیکن آپ کہیں کہ نہیں‘ یہ بات خلافِ اسلام ہے‘ تو اب کہاں جائیں؟  فرمایا:

             فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ: ’’تو اسے لوٹا دو اللہ اور رسول کی طرف‘‘

            یعنی اب جو بھی اپنی بات ثابت کرنا چاہتا ہے اسے اللہ اور اس کے رسول سے یعنی قرآن و سنت سے دلیل لانی پڑے گی۔ میری پسند‘ میرا خیال‘ میرا نظریہ واستدلال قابل ِقبول نہیں ہوگا۔ استدلال کی بنیاد اللہ اور اس کے رسول کی مرضی ہو گی۔ یہ بات ماننی پڑے گی کہ ابھی یہاں ایک خلا ہے۔ وہ خلا یہ ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ فریقین میں سے کس کی رائے صحیح ہے۔ اور آج کے ریاستی نظام میں آ کر وہ خلا ُپر ہو چکا ہے کہ یہ عدلیہ  (Judiciary) کا کام ہے۔ رسول اللہ  کے زمانے میں جب عرب میں اسلامی ریاست قائم ہوئی تو اس طرح علیحدہ علیحدہ ریاستی ادارے ابھی پوری طرح وجود میں نہیں آئے تھے اور ان کی الگ الگ شناخت نہیں تھی کہ یہ مقننہ (Legislature)  ہے‘ یہ عدلیہ (Judiciary) ہے اور یہ انتظامیہ (Executive) ہے۔ حضرت ابوبکر  کے زمانے میں تو کوئی قاضی تھے ہی نہیں۔ سب سے پہلے حضرت عمر نے شعبہ ٔقضاء شروع کیا۔ تو رفتہ رفتہ یہ ریاستی ادارے پروان چڑھے۔ جدید دور میں ان تنازعات کے حل کا ادارہ عدلیہ ہے۔ وہاں ہر شخص جائے اور اپنی دلیل پیش کرے۔ علماء جائیں‘ قانون دان جائیں اور سب جا کر دلائل دیں۔ وہاں سے فیصلہ ہو جائے گا کہ یہ بات واقعتا قرآن و سنت سے متصادم ہے یا نہیں۔

             اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ: ’’اگر تم واقعتا اللہ پر اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘

             ذٰلِکَ خَیْـرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً: ’’یہی طریقہ بہتر بھی ہے اور نتائج کے اعتبار سے بھی بہت مفید ہے۔‘‘

            آگے پھر منافقین کا تذکرہ شروع ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ میں نے آغاز میں عرض کیا تھا کہ اس سورہ مبارکہ کا سب سے بڑا حصہ منافقین سے خطاب اور ان کے تذکرے پر مشتمل ہے۔

UP
X
<>