May 1, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 60

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًا

 (اے پیغمبر !) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ اُس کلام پر بھی ایمان لے آئے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا ہے اور اُس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا تھا، (لیکن) ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنا مقدمہ فیصلے کیلئے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں ؟ حالانکہ ان کو حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ اس کا کھل کر انکار کریں ۔ اور شیطان چاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر پر لے درجے کی گمراہی میں مبتلا کر دے

 آیت 60:   اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّـہُمْ اٰمَنُوْا بِمَـآ اُنْزِلَ اِلَـیْکَ وَمَـآ اُنْزِلَ مِنْ قَـبْلِکَ: ’’کیا تم نے غور نہیں کیا اُن لوگوں کی طرف جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ ایمان لے آئے ہیں اُس پر بھی جو (اے نبی!) آپ پر نازل کیا گیا اور اُس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا‘‘

            لیکن ان کا طرزِ عمل یہ ہے کہ :

             یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّـتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ: ’’وہ چاہتے یہ ہیں کہ اپنے مقدمات کے فیصلے طاغوت سے کروائیں‘‘

            یہاں واضح طور پر ’’طاغوت‘‘ سے مراد وہ حاکم یا وہ ادارہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق فیصلے نہیں کرتا۔ پچھلی آیت میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا تھا۔ گویا جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر کاربند ہو گیا وہ طاغوت سے خارج ہو گیا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو قبول نہیں کرتا وہ طاغوت ہے‘ اس لیے کہ وہ اپنی حد سے تجاوز کر گیا۔ چنانچہ غیر مسلم حاکم یا منصف جو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا پابند نہیں وہ طاغوت ہے۔

             وَقَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّــکْفُرُوْا بِہ:  ’’حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کا کفرکریں۔‘‘

            منافقین ِمدینہ کی عام روش یہ تھی جس مقدمہ میں انہیں اندیشہ ہوتا کہ فیصلہ ان کے خلاف ہو گا اسے نبی اکرم  کی خدمت میں لانے کے بجائے یہودی عالموں کے پاس لے جاتے۔ وہ جانتے تھے کہ حضور کے پاس جائیں گے تو حق اور انصاف کی بات ہو گی۔ ایک یہودی اور ایک مسلمان جو منافق تھا‘ ان کا آپس میں جھگڑا ہو گیا۔ یہودی کہنے لگاکہ چلو محمد  کے پاس چلتے ہیں۔ اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ میں حق پر ہوں۔ لیکن یہ منافق کہنے لگا کہ کعب بن اشرف کے پاس چلتے ہیں جو ایک یہودی عالم تھا۔ بہرحال وہ یہودی اس منافق کو رسول اللہ  کے پاس لے آیا۔ آپ نے دونوں کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ یہودی کے حق میں کر دیا۔ وہاں سے باہر نکلے تو منافق نے کہا کہ چلو اب حضرت عمر  کے پاس چلتے ہیں‘ وہ جو فیصلہ کر دیں وہ مجھے منظور ہو گا۔ وہ دونوں حضرت عمر کے پاس آئے۔ منافق کو یہ امید تھی کہ حضرت عمر  میرا زیادہ لحاظ کریں گے‘ کیونکہ میں مسلمان ہوں۔ جب یہودی نے یہ بتایا کہ اس مقدمے کا فیصلہ رسول اللہ  میرے حق میں کر چکے ہیں تو حضرت عمر نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ تلوار لی اور اس منافق کی گردن اڑا دی کہ جو محمد رٌسول اللہ  کے فیصلے پر راضی نہیں ہے اور اس کے بعد مجھ سے فیصلہ کروانا چاہتا ہے اس کے حق میں میرا یہ فیصلہ ہے! اس پر اس منافق کے خاندان والوں نے بڑا واویلا مچایا۔ وہ چیختے چلاتے ہوئے رسول اللہ  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت عمر  پر قتل کا دعویٰ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مقتول حضرت عمر  کے پاس یہودی کو لے کر اس وجہ سے گیا تھا کہ وہ اس معاملہ میں باہم مصالحت کرا دیں‘ اس کے پیش نظر رسول اللہ  کے فیصلے سے انکار نہیں تھا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں اصل حقیقت ظاہر فرما دی گئی۔

             وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّہُمْ ضَلٰلاًم بَعِیْدًا: ’’اور شیطان چاہتا ہے کہ انہیں بہت دور کی گمراہی میں ڈال دے۔‘‘ 

UP
X
<>