May 17, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 75

وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا 

اور (اے مسلمانو !) تمہارے پاس کیا جواز ہے کہ اﷲ کے راستے میں اور اُن بے بس مردوں ، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ ’’ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اِس بستی سے نکال لائیے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں ، اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کر دیجئے، اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کر دیجئے۔ ‘‘

            اگلی آیت میں خاص طور پر ان مسلمانوں کی نصرت وحمایت کے لیے قتال کے لیے ترغیب دلائی جا رہی ہے جو مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ ان میں کمزور بھی تھے‘  بیمار اور بوڑھے بھی تھے‘ خواتین اور بچے بھی تھے۔ یہ لوگ ایمان تو لے آئے تھے لیکن ہجرت کے قابل نہیں تھے۔ یہ اپنے اپنے علاقوں میں اور اپنے اپنے قبائل میں تھے اور وہاں ان پر ظلم ہو رہا تھا‘  انہیں ستایا جا رہا تھا‘  انہیں تشدد و تعذیب کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ تو خاص طور پر ان کی مدد کے لیے نکلنا ان کی جان چھڑانا اور ان کو بچا کر لے آنا‘ غیرتِ ایمانی کا بہت ہی شدید تقاضا ہے‘ بلکہ یہ  غیرت انسانی کا بھی تقاضا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

 آیت 75:    وَمَا لَــکُمْ لاَ تُـقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ: ’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم قتال نہیں کرتے اللہ کی راہ میں‘‘

             وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآء وَالْوِلْدَانِ: ’’اور ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر جو مغلوب بنا دیے گئے ہیں‘‘

             الَّذِیْنَ یَـقُوْلُوْنَ رَبَّــنَــآ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُہَا: ’’جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار‘ ہمیں نکال اس بستی سے جس کے رہنے والے لوگ ظالم ہیں‘‘

             وَاجْعَلْ لَّــنَا مِنْ لَّـدُنْکَ وَلِــیًّا وَّاجْعَلْ لَّــنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا: ’’اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لیے خاص اپنے فضل سے کوئی مددگار بھیج دے۔‘‘

            ان کی یہ آہ و بکا تمہیں آمادہ پیکار کیوں نہیں کر رہی؟ ان پرظلم ہو رہا ہے‘ ان پر ستم ڈھائے جا رہے ہیں اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم اپنے گھروں سے نکلنے کو تیار نہیں ہو؟ بعض لوگ اس آیت کا انطباق ان مختلف قسم کے سیاسی جہادوں پر بھی کر دیتے ہیں جو کہ آج کل ہمارے ہاں جاری ہیں. اور ان پر ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بات بالکل ہی قیاس مع الفارق ہے۔ واضح رہے کہ یہ خطاب اُن اہل ایمان سے ہو رہا ہے جن کے ہاں اسلام قائم ہو چکا تھا۔ ہم اپنے ملک میں اسلام قائم کر نہیں سکتے۔ یہاں پر دین کے غلبہ و اقامت کی کوئی جدوجہد نہیں کر رہے۔ ہمارے ہاں کفر کا نظام چل رہا ہے۔ اس کے مخاطب اہل ایمان ہیں‘ اور اہل ایمان کا فرض یہ ہے کہ پہلے اپنے گھر کو درست کرو‘ پہلے اپنے ملک کے اندر اسلام قائم کرو، لہٰذا جہاد کرنا ہے تو یہاں کرو‘ جانیں دینی ہیں تو یہاں دو۔ یہاں پر طاغوت کی حکومت ہے‘ غیر اللہ کی حکومت ہے‘ قرآن کے سوا کوئی اور قانون چل رہا ہے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:  وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓــئِکَ ھُمُ الْـکٰفِرُوْنَ … فَاُولٰٓـئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ… فَاُولٰٓـئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ: (المائدۃ) ’’اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں … وہی تو ظالم ہیں … وہی تو فاسق ہیں۔‘‘ چنانچہ کافر‘ ظالم اور فاسق تو ہم خود ہیں۔ ہمیں پہلے اپنے گھر کی حالت درست کرنا ہو گی ۔ اس کے بعد ایک جمعیت قائم ہو گی ۔ ہماری حکومت توان لوگوں سے دوستیاں کرتی پھرتی ہے جن کے خلاف یہاں جہاد کا نعرہ بلند ہو رہا ہے‘ جس میں جانیں دی جا رہی ہیں۔ تو یہ آیت اپنی جگہ ہے۔ ہر چیز کو اس کے سیاق و سباق کے اندر رکھنا چاہیے۔

UP
X
<>