May 17, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 77

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّواْ أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً وَقَالُواْ رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلا أَخَّرْتَنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ قُلْ مَتَاعُ الدَّنْيَا قَلِيلٌ وَالآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَى وَلاَ تُظْلَمُونَ فَتِيلاً 

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے (مکی زندگی میں) کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روک کر رکھو، اور نماز قائم کئے جاؤ اور زکوٰۃ دیتے رہو۔ پھر جب ان پر جنگ فرض کی گئی تو ان میں سے ایک جماعت (دشمن) لوگوں سے ایسی ڈرنے لگی جیسے اﷲ سے ڈرا جاتا ہے، یا اس سے بھی زیادہ ڈرنے لگی، اور ایسے لوگ کہنے لگے کہ ’’ اے ہمارے پروردگار ! آپ نے ہم پر جنگ کیوں فرض کر دی، تھوڑی مدت تک ہمیں مہلت کیوں نہیں دی ؟ ‘‘ کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ تھوڑا سا ہے، اور جو شخص تقویٰ اختیار کرے اس کیلئے آخرت کہیں زیادہ بہتر ہے، اور تم پر ایک تاگے کے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا

 آیت 77:   اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَہُمْ کُفُّوْآ اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ: ’’تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟‘‘

            مکہ مکرمہ میں بارہ برس تک مسلمانوں کو یہی حکم تھا کہ اپنے ہاتھ بندھے رکھو۔ اس دور میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے‘ انہیں بہت بری طرح ستایا جا رہا تھا‘ تشدد و تعذیب کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی تھی۔ اس پر مسلمانوں کا خون کھولتا تھا اور بہت سے مسلمان یہ چاہتے تھے کہ ہمیں اجازت دی جائے تو ہم اپنے بھائیوں پر ہونے والے اس ظلم و ستم کا بدلہ لین‘ آخر ہم نامرد نہیں ہیں‘ بے غیرت نہیں ہیں‘ بزدل نہیں ہیں۔ لیکن انہیں ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ منہج انقلابِ نبوی کا ’’صبر محض‘‘ کا مرحلہ تھا اس وقت حکم یہ تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو۔

           نغمہ ہے  بلبل   شوریدہ  تیرا  خام  ابھی

          اپنے  سینے  میں  اسے اور ذرا تھام ابھی

            ایک وقت آئے گا کہ تمہارے ہاتھ کھول دیے جائیں گے۔

            یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ  «اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَہُمْ کُفُّوْآ اَیْدِیَکُمْ» فعل مجہول ہے۔ یہ کہا کس نے تھا؟ مکی قرآن میں تو ’’کُفُّوْآ اَیْدِیَکُمْ‘‘ کا حکم موجود نہیں ہے۔ یہ حکم تھا محمد رسول اللہ  کا۔ حضور  نے اہل ایمان کو ہاتھ اٹھانے سے روکا تھا۔ یہ آیت سورۃ النساء میں نازل ہو رہی ہے جو مدنی ہے۔ کہ اس وقت بھی وہ رسول اللہ  کا حکم تھا‘ جس کو اللہ نے اپنا حکم قرار دیا۔ گویا یہ اللہ ہی کی طرف سے تھا۔ وحی جلی تو یہ قرآن ہے۔ اس کے علاوہ نبی اکرم  پر وحی خفی بھی نازل ہوتی تھی۔ تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکی دورمیں وحی خفی کے ذریعے رسول اللہ  کو یہ حکم دیا ہو جو یہاں نقل ہوا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حضور کا اپنا اجتہاد ہو جسے اللہ نے برقرار رکھا ہو‘ اسے قبول (own) کیا ہو۔

            اب یہ بات یہاں محذوف ہے کہ اُس وقت تو کچھ لوگ بڑے جوش وجذبہ سے اور بڑے زور شور سے کہتے تھے کہ ہمیں اجازت ہونی چاہیے کہ ہم جنگ کریں‘ لیکن اب کیا حال ہوا:

             فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَۃً: ’’تو ان میں سے ایک فریق کا حل یہ ہے کہ وہ لوگوں سے اس طرح ڈر رہے ہیں جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیے‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ ڈر رہے ہیں۔‘‘

            ظاہر بات ہے کہ یہ مکہ کے مہاجرین نہیں تھے‘ بلکہ یہ حال منافقین مدینہ کا تھا‘ لیکن فرق و تفاوت واضح کرنے کے لیے مکی دور کی کیفیت سے تقابل کیا گیا کہ اصل ایمان تو وہ تھا‘ اور یہ جو صورت حال ہے یہ کمزوری ایمان اور نفاق کی علامت ہے۔

             وَقَالُوْا رَبَّــنَا لِمَ کَتَـبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ: ’’اور وہ کہتے ہیں پروردگار! تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کر دی؟‘‘

             لَـوْلَآ اَخَّرْتَنَــآ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ: ’’کیوں نہ ابھی ہمیں کچھ اور مہلت دی؟‘‘

            اس حکم کو کچھ دیر کے لیے مزید مؤخر کیوں نہ کیا؟

             قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ:’’(اے نبی!) کہہ دیجیے دنیا کا ساز و سامان بہت تھوڑا ہے۔‘‘

             وَالْاٰخِــرَۃُ خَیْـرٌ لِّـمَــنِ اتَّــقٰی: ’’اور آخرت بہت بہتر ہے اس کے لیے جو تقویٰ کی روش اختیار کرے‘‘

             وَلاَ تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً: ’’اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں ہو گا۔‘‘

            تمہاری حق تلفی قطعاً نہیں ہوگی اور تمہارے جو بھی اعمال ہیں‘ انفاق ہے‘قتال ہے‘ اللہ کی راہ میں ایثار ہے‘ اس کا تمہیں بھرپور اجرو ثواب دے دیا جائے گا۔

UP
X
<>