May 17, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 79

مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولاً وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا 

تمہیں جو کوئی اچھائی پہنچتی ہے تو وہ محض اﷲ کی طرف سے ہوتی ہے، اور جو کوئی برائی پہنچتی ہے، وہ تو تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے، اور (اے پیغمبر !) ہم نے تمہیں لوگوں کے پاس رسول بنا کر بھیجا ہے، اور اﷲ (اس بات کی) گواہی دینے کیلئے کافی ہے

آیت 79:   مَـآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَـآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّـئۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ: ’’(اے مسلمان!) تجھے جو بھلائی بھی پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے پہنچتی ہے‘ اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ خود تیرے نفس کی طرف سے ہے۔‘‘

            اس آیت کے بارے میں مفسرین نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں۔ میرے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ یہاں تحویل خطاب ہے۔ پہلی آیت میں خطاب ان مسلمانوں کو جن کی طرف سے کمزوری یا نفاق کا اظہار ہو رہا تھا‘ لیکن اس آیت میں بحیثیت مجموعی خطاب ہے کہ دیکھو اے مسلمانو! جو بھی کوئی خیر تمہیں ملتا ہے اس پر تمہیں یہی کہنا چاہیے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور کوئی شر پہنچ جائے تو اسے اپنے کسب و عمل کا نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ اگرچہ ہمارا ایمان ہے کہ خیر بھی اللہ کی طرف سے ہے اور شر بھی۔ ’’ایمان مفصل‘‘ میں الفاظ آتے ہیں: ’’وَالْقَدْرِ خَیْرِہ وَشَرِّہ مِنَ اللّٰہِ تَـعَالٰی‘‘ لیکن ایک مسلمان کے لیے صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ خیر ملے تو اسے اللہ کا فضل سمجھے۔ اور اگر کوئی خرابی ہو جائے تو سمجھے کہ یہ میری کسی غلطی کے سبب ہوئی ہے‘ مجھ سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے‘ جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی تادیب فرمانی چاہی ہے۔

             وَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلاً: ’’اور (اے نبی) ہم نے آپ کو تو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

            اس مقام کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ درمیانی ٹکڑے میں بھی خطاب تو رسول اللہ  ہی سے ہے‘ لیکن استعجاب کے انداز میں کہ اچھا! جو کچھ انہیں خیر مل جائے وہ تو اللہ کی طرف سے ہے اور جو کوئی برائی آ جائے تو وہ آپ کی طرف سے ہے! یعنی کیا بات یہ کہہ رہے ہیں! جبکہ اللہ نے تو آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اس کی یہ دو تعبیریں ہیں۔ میرے نزدیک پہلی تعبیر راجح ہے۔

             وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا: ’’اور اللہ تعالیٰ کافی ہے گواہ کے طور پر۔‘‘ 

UP
X
<>