May 17, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 84

فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لاَ تُكَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَسَى اللَّهُ أَن يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنكِيلاً

لہٰذا (اے پیغمبر !) تم اﷲ کے راستے میں جنگ کرو۔ تم پر اپنے سواکسی اور کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہاں مومنوں کو ترغیب دیتے رہو۔ کچھ بعید نہیں کہ اﷲ کافروں کی جنگ کا زور توڑ دے۔ اور اﷲ کا زور سب سے زیادہ زبردست ہے اور اس کی سزا بڑی سخت

آیت 84:    فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : ’’پس (اے نبی!) آپ جنگ کریں اللہ کی راہ میں!‘‘

            قتال کے ضمن میں یہ قرآن مجید کی غالباً سخت ترین آیت یہ ہے‘ لیکن اس میںسختی لفظی نہیں‘ معنوی ہے۔

             لاَ تُـکَلَّفُ اِلاَّ نَفْسَکَ:’’آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے سوائے اپنی ذات کے‘‘

             وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ: ’’البتہ اہل ایمان کو آپ اس کے لیے اُکسائیں۔‘‘

            آپ اہل ایمان کو قتال فی سبیل اللہ کے لیے جس قدر ترغیب و تشویق دے سکتے ہیں دیجیے۔ انہیں اس کے لیے جوش دلایے‘  ابھاریے۔ لیکن اگر کوئی اور نہیں نکلتا تو اکیلے نکلئے جیسے حضرت ابو بکر کا قول بھی نقل ہوا ہے جب ان سے کہا گیا کہ مانعین زکوٰۃ کے بارے میں نرمی کیجیے تو آپ  نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی میرا ساتھ نہیں دے گا تو میں اکیلا جاؤں گا‘ عزیمت کا یہ عالم ہے! تو اے نبی آپ کو تو یہ کام کرنا ہے‘ آپ کا تو یہ فرضِ منصبی ہے۔ آپ کو ہم نے بھیجا ہی اس لیے ہے کہ روئے ارضی پر اللہ کے دین کو غالب کر دیں۔

             عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّــکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا: ’’بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ جلد ہی ان کافروں کی قوت کو روک دے۔‘‘

            کفار و مشرکین کی جنگی تیاریاں ہو رہی ہیں‘ بڑی چلت پھرت ہو رہی ہے‘ یہ تو کچھ عرصے کی بات ہے وہ وقت بس آیا چاہتا ہے کہ ان میں دم نہیں رہے گا کہ آپ کا مقابلہ کریں۔ اور وہ وقت جلد ہی آ گیا کہ مشرکین کی کمر ٹوٹ گئی۔ سورۃ النساء کی یہ آیت ۴ہجری میں نازل ہوئی اور ۵ہجری میں غزوئہ احزاب پیش آیا۔ جس کے بعد محمد رسول اللہ  نے اہل ایمان سے فرمایا کہ «لن تغزوکم قریش بعد عامکم ھذا ولکنکم تغزونھم» ’’اس سال کے بعد قریش تم پر حملہ آور ہونے کی جرأت نہیں کریں گے‘ بلکہ اب تم ان پر حملہ آور ہو گے۔‘‘ غزوہ احزاب کے فوراً بعد سورۃ الصف نازل ہوئی۔ جس میں اہل ایمان کو فتح و نصرت کی بشارت دی گئی۔  وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَـھَا نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ. اس سے اگلے سال 6 ہجری میں آپ  نے عمرے کا سفر کیا‘جس کے نتیجے میں صلح حدیبیہ ہو گئی‘ جسے اللہ تعالیٰ نے فتح مبین قرار دیا  اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا۔ اس کے بعد ساتویں سال اللہ تعالیٰ نے فتح خیبر عطا فرما دی اور آٹھویں سال میں مکہ فتح ہو گیا۔ اس طرح ایک کے بعد ایک‘ سارے بند دروازے کھلتے چلے گئے۔

             وَاللّٰہُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْکِیْلاً: ’’اور یقینا اللہ تعالیٰ بہت شدید ہے قوت میں بھی اور سزا دینے میں بھی۔‘‘ 

UP
X
<>