May 17, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 86

وَإِذَا حُيِّيْتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا  

اور جب تمہیں کوئی شخص سلام کرے تو تم اسے اس سے بھی بہتر طریقے پر سلام کرو، یا (کم از کم) انہی الفاظ میں اس کا جواب دے دو۔ بیشک اﷲ ہر چیز کا حساب رکھنے والا ہے

 آیت 86:  وَاِذَا حُیِّـیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْہَآ اَوْرُدُّوْہَاط:  ’’اور جب تمہیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تو تم بھی سلامتی کی اس سے بہتر دعا دو یا اسی کو لوٹا دو۔‘‘

            ہر معاشرے میں کچھ ایسے دعائیہ کلمات رائج ہوتے ہیں جو معاشرے کے افراد باہمی ملاقات کے وقت‘استعمال کرتے ہیں۔ جیسے مغربی معاشرے میں گڈ مارننگ اور گڈ ایوننگ وغیرہ۔ عربوں کے ہاں صباح الخیر اور مساء الخیر کے علاوہ سب سے زیادہ رواج ’’حَیَّاکَ اللّٰہ‘‘ کہنے کا تھا۔ یعنی اللہ تمہاری زندگی بڑھائے۔ جیسے ہمارے ہاں سرائیکی علاقے میں کہا جاتا ہے ’’حیاتی ہووے‘‘۔  درازی عمر کی اس دعا کو تَحِیَّہ کہا جاتا ہے۔ سلام اوراس کے ہم معنی دوسرے دعائیہ کلمات بھی سب اس کے اندر شامل ہو جاتے ہیں۔ عرب میں جب اسلامی معاشرہ وجودمیں آیا تو دیگر دعائیہ کلمات بھی باقی رہے‘ البتہ ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ‘‘ کو ایک خاص اسلامی شعار کی حیثیت حاصل ہوگی۔ اس آیت میں ہدایت کی جا رہی ہے کہ جب تمہیں کوئی سلامتی کی دعا دے تو اس کے جواب کا اعلیٰ طریقہ یہ ہے کہ اس سے بہتر طریقے پر جواب دو۔ ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ‘‘ کے جواب میں ’’وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ‘‘ کے ساتھ ’’وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاُتہ‘‘ کا اضافہ کر کے اسے لوٹائیں۔ اگر یہ نہیں تو کم از کم اسی کے الفاظ اس کی طرف لوٹا دو۔

             اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ حَسِیْـبًا: ’’یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے۔‘‘

            یہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں جو ہیں انسانی زندگی میں ان کی بھی اہمیت ہے۔ ان معاشرتی آداب سے معاشرتی زندگی کے اندر حسن پیدا ہوتا ہے‘ آپس میں محبت و مودت پیدا ہوتی ہے۔ 

UP
X
<>