May 17, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 87

اللَّهُ لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لاَ رَيْبَ فِيهِ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِيثًا 

اﷲ وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ۔ وہ تمہیں ضرو ر بالضرور قیامت کے دن اکٹھا کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور کون ہے جو اﷲ سے زیادہ بات کا سچا ہو ؟

 آیت 87:    اَللّٰہُ لَآ اِلٰــہَ اِلاَّ ہُوَ: ’’اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘

             لَـیَجْمَعَنَّـکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لاَ رَیْبَ فِیْـہِ: ’’وہ تمہیں لازماً جمع کرے گا قیامت کے دن‘ جس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔‘‘

             وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا: ’’اور اللہ سے بڑھ  کر اپنی بات میں سچا کون ہو گا؟‘‘

            منافقین پر جو تین چیزیں بہت شاق تھیں‘ اب ان میں سے تیسری چیز کا تذکرہ آ رہا ہے‘  یعنی ہجرت۔ ایک تو وہ لو گ تھے جو بیمارتھے‘ بوڑھے تھے‘ سفر کے قابل نہیں تھے‘ یا عورتیں اور بچے تھے‘ان کا معاملہ تو پہلے ذکر ہو چکا کہ ان کے لیے تمہیں قتال کرنا چاہیے تاکہ انہیں ظالموں کے چنگل سے چھڑاؤ۔ ایک وہ لوگ تھے جو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا اعلان تو کر چکے تھے لیکن اپنے کافر قبیلوں اور اپنی بستیوں کے اندر آرام سے رہ رہے تھے اور ہجرت نہیں کر رہے تھے‘ جبکہ ہجرت اب فرض کر دی گئی تھی۔ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ ہجرت فرض کیوں کر دی گئی؟ اس لیے کہ جب محمد رسول اللہ  کی دعوت اور تحریک اس مرحلے میں داخل ہو گئی کہ اب باطل کے خلاف اقدام کرنا ہے‘ تو اب اہل ایمان کی جتنی بھی دستیاب طاقت تھی اسے ایک مرکز پر مجتمع کرنا ضروری تھا‘ مکی دور میں جو پہلی ہجرت ہوئی تھی یعنی ہجرت حبشہ وہ اختیاری تھی۔ اس کی  صرف اجازت تھی‘ حکم نہیں تھا لیکن ہجرتِ مدینہ کا تو حکم تھا۔ لہٰذا اب ان لوگوں کا ذکر ہے جو اس بنا پر منافق قرار پائے کہ وہ ہجرت نہیں کر رہے ہیں۔

UP
X
<>