May 17, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 90

إِلاَّ الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَىَ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ أَوْ جَآؤُوكُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَن يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُواْ قَوْمَهُمْ وَلَوْ شَاء اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْاْ إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلاً 

ہاں وہ لوگ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جو کسی ایسی قوم سے جاملیں جن کے اور تمہارے درمیان کوئی (صلح کا) معاہدہ ہے، یا وہ لوگ جو تمہارے پاس اس طرح آئیں کہ ان کے دل تمہارے خلاف جنگ کرنے سے بھی بیزار ہوں، اور اپنی قوم کے خلاف جنگ کرنے سے بھی۔ اور اگر اﷲ چاہتا تو انہیں تم پر مسلط کر دیتا، تو وہ تم سے ضرور جنگ کرتے۔ چنانچہ اگر وہ تم سے کنارہ کشی کرتے ہوئے تم سے جنگ نہ کریں ، اور تم کو امن کی پیشکش کردیں تو اﷲ نے تم کو ان کے خلاف کسی کارروائی کا کوئی حق نہیں دیا

 آیت 90:    اِلاَّ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰی قَوْمٍ بَیْنَـکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ: ’’سوائے ان کے جن کا تعلق کسی ایسی قوم سے ہو جس کے ساتھ تمہارا کوئی معاہدہ ہے‘‘

            یعنی اس حکم سے صرف وہ منافقین مستثنیٰ ہیں جو کسی ایسے قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں جس کے ساتھ تمہارا صلح کا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے سے انہیں بھی تحفظ حاصل ہوجائے گا۔

             اَوْجَآؤُوْکُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُہُمْ: ’’یا وہ لوگ جو تمہارے پاس اس حال میں آئیں کہ دل برداشتہ ہوں‘‘

             اَنْ یُّــقَاتِلُوْکُمْ اَوْ یُــقَاتِلُوْا قَوْمَہُمْ: ’’اس بات سے کہ تم سے لڑیں یا اپنی قوم سے لڑیں۔‘‘

            یعنی ان میں اتنی جرأت نہیں رہی کہ وہ تمہارے ساتھ ہو کر اپنی قوم کے خلاف لڑیں یا اپنی قوم کے ساتھ ہو کر تمہارے خلاف لڑیں۔ انسانی معاشرے میں ہر سطح کے لوگ ہر دور میں رہے ہیں اور ہر دور میں رہیں گے۔ لہٰذا واضح کیا جا رہا ہے کہ انقلابی جدوجہد کے دوران ہر طرح کے حالات آئیں گے اور ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑے گا۔ اس طرح کے کم ہمت لوگ جو کہتے تھے بھئی ہمارے لیے لڑنا بھڑنا مشکل ہے‘ نہ تو ہم اپنی قوم کے ساتھ ہو کر مسلمانوں سے لڑیں گے اور نہ مسلمانوں کے ساتھ ہو کر اپنی قوم سے لڑیں گے‘ ان کے بارے میں بھی فرمایا کہ ان کی بھی جان بخشی کرو۔ چنانچہ ہجرت نہ کرنے والے منافقین کے بارے میں جو یہ حکم دیا گیا کہ  فَخُذُوْہُمْ وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّـمُوْہُمْ: ’’پس ان کو پکڑو اور قتل کرو جہاں کہیں بھی پاؤ‘‘ اس سے دو استثناء بیان کر دیے گئے۔

             وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَسَلَّطَہُمْ عَلَیْـکُمْ فَلَقٰـتَلُوْکُمْ: ’’اگر اللہ چاہتاتو ان کو تم پر مسلط کر دیتا اور وہ تم سے لڑتے۔‘‘

            یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ اللہ انہیں تمہارے خلاف ہمت عطا کر دیتا اور وہ تمہارے خلاف قتال کرتے۔

             فَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُـقَاتِلُوْکُمْ: ’’پس اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کش رہیں اور تم سے جنگ نہ کریں‘‘

             وَاَلْقَوْا اِلَـیْکُمُ السَّلَمَ: ’’اور تمہاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں۔‘‘

             فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَــکُمْ عَلَیْہِمْ سَبِیْلاً: ’’تو اللہ نے تمہیں بھی ایسے لوگوں کے خلاف اقدام کرنے کی اجازت نہیں دی‘‘

            تو اس بات کو سمجھ لیجیے کہ جو منافق ہجرت نہیں کر رہے‘ ان کے لیے قاعدہ یہ ہے کہ اب ان کے خلاف اقدام ہو گا‘ انہیں جہاں بھی پاؤ پکڑو اور قتل کرو‘ وہ حربی کافروں کے حکم میں ہیں۔ اِلاّ یہ کہ (ا)  ان کے قبیلے سے تمہارا صلح کا معاہدہ ہے تو وہ ان کو تحفظ فراہم کر جائے گا۔

(ب)  وہ آ کر اگر یہ کہہ دیں کہ ہم بالکل غیر جانبدار ہو جاتے ہیں‘ ہم میں جنگ کی ہمت نہیں ہے‘ ہم نہ آپ کے ساتھ ہو کر اپنی قوم سے لڑ سکتے ہیں اور نہ ہی آپ کے خلاف اپنی قوم کی مدد کریں گے‘ تب بھی انہیں چھوڑ دو۔ اس کے بعد اب منافقین کے ایک تیسرے گروہ کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔

UP
X
<>