May 5, 2024

قرآن کریم > غافر >sorah 40 ayat 11

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ

وہ کہیں گے کہ : ’’ اے ہمارے پروردگار ! تو نے ہمیں دو مرتبہ موت دی، اور دو مرتبہ زندگی دی، اب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں ، تو کیا (ہمارے دوزخ سے) نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟‘‘

آیت ۱۱:  قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ:  ’’وہ فریاد کریں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں دو دفعہ مارا اور دو دفعہ زندہ کیا‘‘

         فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَہَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ:  ’’تو اب ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے، تو کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی راہ ہے؟‘‘

        یعنی اگر ہم اس سے پہلے اتنے مراحل سے گزر آئے ہیں تو اب اس مرحلے سے بھی گزرنے کا کوئی طریقہ تو ہو گا۔ تو اے پروردگار! ایک دفعہ ہمیں اس عذاب سے جان چھڑانے کا موقع بھی فراہم کر دے۔

        تخلیق انسانی اور حیاتِ انسانی کی حقیقت کے ضمن میں اس آیت کا مضمون پورے قرآن میں ذروۂ سنام کا درجہ رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ مضمون قرآن میں متعدد بار آ چکا ہے لیکن اس قدر واضح انداز میں اور کہیں نہیں آیا۔ مثلاً سورۃ البقرۃ میں فرمایا گیا: (کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتاً فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ) ’’تم کیسے کفر کرتے ہو اللہ کا‘ حالانکہ تم مردہ تھے تو اُس نے تمہیں زندہ کیا‘ پھر وہ تمہیں مارے گا‘ پھر زندہ کرے گا‘ پھر تم اُسی کی طرف لوٹا دیے جاؤ گے‘‘۔ اگرچہ سورۃ البقرۃ کی اس آیت میں بھی دو احیاء اور دو اموات کا ذکر ہے مگر مختلف مفسرین نے ان الفاظ کی تاویل مختلف انداز میں کی ہے۔ البتہ آیت زیر مطالعہ اپنے مفہوم میں اس قدر واضح ہے کہ اس کی وضاحت کے لیے کسی تعبیر اور تاویل کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ اس آیت کے حوالے سے یہاں حیاتِ انسانی کے مختلف ادوار کو اچھی طرح سے سمجھ لیجیے۔

        ہر انسان کی پہلی تخلیق اُس وقت عمل میں آئی جب عالم ارواح میں اس کی روح پیدا کی گئی۔ عالم ارواح کی یہ زندگی پورے شعور کے ساتھ تھی۔ اسی لیے تو وہاں تمام ارواح سے وہ عہد لیا گیا تھا جس کا ذکر سورۃ الاعراف کی آیت: ۱۷۲ میں  اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی کے الفاظ کے ساتھ ہوا ہے۔ اس عہد کے وقت حضرت آدم کی رُوح سے لے کر دنیا کے آخری انسان کی روح تک تمام ارواح حاضر و موجود تھیں۔ عالم ارواح میں ارواح کے اس عظیم الشان اجتماع کی کیفیت ایک حدیث میں ’’جُنُوْدٌ مُّجَنَّدَۃ‘‘ (لشکروں کے لشکر) کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ مذکورہ عہد لینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح کو موت کی نیند سلا دیا۔ یہ ہر انسان کی پہلی موت (اماتہ اولیٰ) تھی جو عالم ارواح میں اس پر وارد ہوئی۔ اس طرح تمام ارواح کو گویا ایک کولڈ سٹوریج میں محفوظ کر دیا گیا۔ چنانچہ جو ارواح ابھی تک دنیا میں نہیں آئیں وہ ابھی تک اسی کیفیت میں ہیں۔ علامہ اقبال نے اس کیفیت کا عجیب نقشہ کھینچا ہے مگر یہ ایسی تفصیل کا موقع نہیں۔

        پھر جب عالم خلق (ماں کے پیٹ) میں کسی انسان کے جسم کا لوتھڑا تیار ہو جاتا ہے تو اس کی روح کو عالم ارواح سے اس لوتھڑے میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اس جسم میں منتقل ہونے کے بعد جب روح ’’آنکھ‘‘ کھولتی ہے تو یہ اس روح کا ’’احیائے اوّل‘‘ ہے۔ اس کے بعد وہ انسان ماں کے پیٹ سے دنیا میں وارد ہوتا ہے۔ ایک معین عرصے تک دنیا میں زندگی بسر کرتا ہے اور اس کے بعد مر جاتا ہے۔ چنانچہ دُنیوی زندگی کی یہ موت اس انسان یا روح کی دوسری موت (اماتہ ثانیہ) ہے۔ اس موت کے بعد وہ روح عالم برزخ میں چلی جاتی ہے‘ جبکہ جسم اپنی اصل کی طرف لوٹ جاتا ہے یعنی مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتا ہے۔ اسی طرح پوری نوعِ انسانی کی ارواح اپنی اپنی باری پر زندہ ہو کر دنیا میں آتی جائیں گی اور یہاں اپنے اپنے جسم کے ساتھ زندگی گزار کر ’’دوسری موت‘‘ کے بعد عالم برزخ کو سدھارتی جائیں گی۔

        اس کے بعد جب قیامت برپا ہو گی تو ہر انسان کی روح کو ایک دفعہ پھر اس کے دنیوی جسم سے ملا کر زندہ کر دیا جائے گا۔ یہ تمام انسانوں کا ’’احیائے ثانی‘‘ ہو گا۔ چنانچہ جب میدانِ حشر میں اللہ کی عدالت لگے گی تو مجرم لوگ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دو مرتبہ موت دی اور دو دفعہ زندہ کیا۔ عالم ارواح سے دنیا کی زندگی تک اور دنیا کی موت کے بعد قیامت کے اس دن تک کئی ادوار ہم پر گزر چکے‘ تو اے ہمارے پروردگار! اب ایک دور اور سہی۔ ایک مرتبہ پھر ہم پر کرم فرمایا جائے اور ہمیں ایک موقع اور دے دیا جائے۔ یعنی وہ لوگ اپنی سابقہ زندگی کے مختلف ادوار کو دلیل بنا کر ایک اور دور کی رعایت حاصل کرنے کی درخواست کریں گے۔ 

UP
X
<>