May 4, 2024

قرآن کریم > غافر >sorah 40 ayat 29

يَا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فِي الأَرْضِ فَمَن يَنصُرُنَا مِن بَأْسِ اللَّهِ إِنْ جَاءنَا قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلاَّ مَا أَرَى وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلاَّ سَبِيلَ الرَّشَادِ

اے میری قوم! آج تو تمہیں ایسی سلطنت حاصل ہے کہ زمین میں تمہارا راج ہے، لیکن اگر اﷲ کا عذاب ہم پر آگیا تو کون ہے جو اُس کے مقابلے میں ہماری مدد کرے؟‘‘ فرعون نے کہا : ’’ میں تو تمہیں وہی رائے دوں گا جسے میں دُرست سمجھتا ہوں ، اور میں تمہاری جو رہنمائی کر رہا ہوں ، وہ بالکل ٹھیک راستے کی طرف کر رہا ہوں ۔‘‘

آیت ۲۹:   یٰــقَوْمِ لَکُمُ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ظٰہِرِیْنَ فِی الْاَرْضِ:  ’’اے میری قوم کے لوگو! آج تو تمہارے ہاتھ میں حکومت ہے اور تم ہر طرح سے زمین میں غالب ہو۔‘‘

        آج تو تم ایک عظیم الشان سلطنت کے مالک ہو اور پوری دنیا میں تمہاری طاقت کا ڈنکا بج رہا ہے۔

         فَمَنْ یَّنْصُرُنَا مِنْ بَاْسِ اللّٰہِ اِنْ جَآءَنَا:  ’’لیکن اگر کہیں ہم پر اللہ کا عذاب آ گیا توا س سے بچانے کے لیے ہماری مدد کون کرے گا؟‘‘

         قَالَ فِرْعَوْنُ مَآ اُرِیْکُمْ اِلَّا مَآ اَرٰی:  ’’فرعون نے کہا: میں تو تمہیں وہی کچھ  دکھا رہا ہوں جو مجھے نظر آ رہا ہے‘‘

        مجھے تو یہ نظر آ رہا ہے کہ اگر اب بھی موسیٰؑ کا قصہ پاک نہ کیا گیا تو پانی ہمارے سروں سے گزر جائے گا اور یہ مصر کے طول و عرض میں فساد برپا کر دے گا۔ اس طرح جو تباہی آئے گی وہ ہمارا سب کچھ برباد کر کے رکھ دے گی۔ اس فقرے کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے تو تمہارے سامنے اپنی وہی رائے پیش کی ہے جو مجھے مناسب نظر آتی ہے ---- مردِ مؤمن کی کھری کھری باتوں کے جواب میں فرعون کا یہ معذرت خواہانہ ردِ عمل حیران کن ہے۔ فرعون کی مطلق العنانی کا تصور ذہن میںرکھیے اور پھر اس مختصر سے جملے کے ایک ایک لفظ سے ٹپکتی ہوئی بے بسی اور بے چارگی ملاحظہ کیجیے۔

         وَمَآ اَہْدِیْکُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ: ’’اور میں نہیں راہنمائی کر رہا تمہاری مگر کامیابی کے راستے کی طرف۔‘‘

UP
X
<>