May 6, 2024

قرآن کریم > غافر >sorah 40 ayat 60

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ

اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ : ’’ مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، بیشک جو لوگ تکبر کی بنا پر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ، وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘

آیت ۶۰:   وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ: ’’اور تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھے پکارو‘ میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔‘‘

        ابتدا میں بتایا گیا تھا کہ اس سورت کا مرکزی مضمون دعا ہے۔ چنانچہ نوٹ کیجیے یہاں پھر فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تم میرے بندے ہو تو مجھ سے مانگو! انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اُس سے مانگا جائے تو اس پر گراں گزرتا ہے‘جبکہ اللہ سے اگر نہ مانگا جائے تو وہ ناراض ہوتا ہے۔ گویا عطائے خداوندی خود سائلوں کی تلاش میں رہتی ہے ع: ’’ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں!‘‘ نبی اکرم کا فرمان ہے کہ رات کے پچھلے پہر اللہ تعالیٰ سمائے دنیا تک نزول فرماتے ہیں اور ایک ندا ہوتی ہے: ھَلْ مِنْ سَائِلٍ فَاُعْطِیَہُ، ھَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاَغْفِرَ لَـہٗ، ھَلْ مِنْ تَائِبٍ فَاَتُوْبَ عَلَیْہِ، ھَلْ مِنْ دَاعٍ فَاُجِیْبَہٗ.  ’’ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اسے عطا کروں؟ ہے کوئی گناہوں کی معافی مانگنے والا کہ میں اسے معاف کروں؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ میں اس کی توبہ قبول کروں؟ ہے کوئی پکارنے والا کہ میں اس کی پکار قبول کروں؟‘‘

         اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ: ’’یقینا وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کی بنا پر اعراض کرتے ہیں وہ داخل ہوں گے جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر۔‘‘

        قبل ازیں عبادت اور دعا کے لازم و ملزوم ہونے کے بارے میں گفتگو ہو چکی ہے اور اس حدیث کا ذکر بھی ہو چکا ہے جس میں حضور نے فرمایا ہے کہ دعا ہی اصل عبادت ہے۔ چنانچہ اس آیت میں یہ نکتہ مزید واضح ہو گیا ہے۔ یہاں پر پہلے دعا کا ذکر کیا گیا ہے (ادْعُوْنِیْٓ) اور پھر اسی کے لیے عبادت کا لفظ لایا گیا ہے۔ گویا اس آیت میں دعا اور عبادت مترادف الفاظ کے طور پر آئے ہیں۔ 

UP
X
<>