May 3, 2024

قرآن کریم > فصّلت >sorah 41 ayat 41

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءهُمْ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ

بیشک (اُن لوگوں نے بہت بُرا کیا ہے) جنہوں نے نصیحت کی اس کتاب کا انکار کیا جبکہ وہ اُن کے پاس آچکی تھی، حالانکہ وہ بری عزت والی کتاب ہے

آیت ۴۱:  اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِالذِّکْرِ لَمَّا جَآءَ ہُمْ: ’’یقینا وہ لوگ جنہوں نے اس یاد دہانی کا انکار کیا جبکہ یہ ان کے پاس آ گئی۔‘‘

        اس سے آگے اس مفہوم کے الفاظ محذوف ہیں کہ ’’اب ان لوگوں کی شامت آنے والی ہے‘‘۔ نوٹ کیجیے کہ اس سورت میں یہاں تیسری مرتبہ قرآن کا ذکر آیا ہے۔ (اس سے پہلے آیت: ۳ اور آیت: ۲۶ میں بھی قرآن کا ذکر آ چکا ہے۔ ) یہاں قرآن کو ’’الذکر‘‘ یعنی یاد دہانی قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب تو اس گواہی کو اُجاگر کرکے تمہارے سامنے لا رہی ہے جو پہلے سے تمہاری فطرت کے اندر مخفی ہے۔ اللہ کی معرفت اور اس کی محبت تو تمہاری ارواح کے اندر پہلے سے موجود تھی لیکن تمہاری عدم توجہی کی وجہ سے اس معرفت پر غفلت اور ذہول کے پردے پڑ گئے تھے، جس کے نتیجے میں تم اپنی فطرت کی اصل پہچان کو بھول کر اللہ ہی کو بھول گئے تھے۔ سورۃ الحشر کی آیت ۱۹ میں اہل ایمان کو اسی حوالے سے تاکید کی گئی ہے (وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰہُمْ اَنْفُسَہُمْ) کہ اے اہل ایمان !تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو نتیجتاً اللہ نے انہیں ایسا کر دیا کہ وہ خود اپنے آپ ہی کو بھول گئے۔ چنانچہ یہاں قرآن کو ’’الذکر‘‘ کہہ کر گویا اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ کتاب انسانی فطرت میں مضمرمعرفت خداوندی کے ابدی سبق کی یاد دہانی کے لیے آئی ہے۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے اس یاد دہانی کا انکار کر دیا ہے اب ان کی شامت آنے والی ہے۔

         وَاِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیْزٌ: ’’ (انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ) بلاشبہ یہ ایک زبردست کتاب ہے۔‘‘

UP
X
<>