May 3, 2024

قرآن کریم > فصّلت >sorah 41 ayat 50

وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاء مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَى رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَى فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ

اور جو تکلیف اُسے پہنچتی تھی، اگر اُس کے بعد ہم اُسے اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزہ چکھا دیں تو وہ لازماً یہ کہے گا کہ : ’’ یہ تو میرا حق تھا، اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت آنے والی ہے، اور اگر مجھے اپنے رَبّ کے پاس واپس بھیجا بھی گیا تو مجھے یقین ہے کہ اُس کے پاس بھی مجھے خوش حالی ہی ضرور ملے گی۔‘‘ اب ہم ان کافروں کو یہ ضرور جتلائیں گے کہ اُنہوں نے کیا عمل کئے ہیں ، اور اُنہیں ایک سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے

آیت ۵۰: وَلَئِنْ اَذَقْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنَّا مِنْ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْہُ: ’’اور اگر اسے ہم اپنی رحمت کا مزہ چکھا دیں اس کے بعد کہ اسے کوئی تکلیف پہنچی تھی‘‘

         لَیَقُوْلَنَّ ہٰذَا لِیْ: ’’تو وہ ضرور کہے گا کہ ہاں یہ تو میرا حق ہے‘‘

        سختی کا وقت گزر جانے کے بعد حالات بہتر ہو جانے پر وہ بڑے فخر سے دعوے کرے گا کہ میں نے اپنے ناخن تدبیر سے تمام عقدے حل کر لیے ہیں اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بالآخرمیں نے اپنے تمام مسائل پر قابوپا لیاہے۔

         وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً: ’’اور میں نہیں سمجھتا کہ یہ قیامت وغیرہ کوئی قائم ہونے والی شے ہے۔‘‘

         وَّلَئِنْ رُّجِعْتُ اِلٰی رَبِّیْٓ: ’’اور اگر مجھے لوٹا ہی دیا گیا میرے رب کی طرف‘‘

        یہ ہو بہو وہی الفاظ ہیں جو سورۃ الکہف کی آیت: ۳۶ میں ایک مالدار اور آسودہ حال شخص کے حوالے سے نقل ہوئے ہیں۔ ان دونوں مکالموں میں صرف رُدِدْتُ اور رُجِعْتُ کا فرق ہے۔ یہ جملہ دراصل ایک ایسے مادیت پسند انسان کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو دنیا کی زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھتا ہے اور ہمہ تن اسی کی زیب و زینت میں گم ہے۔ ایسے شخص کو اگر کسی وقت آخرت کی فکر پریشان کرتی ہے تو وہ اس خیال سے خود کو تسلی دے لیتا ہے کہ قیامت برپا ہونے کی یہ تمام باتیں اوّل تو محض ایک ڈھکوسلا ہیں، لیکن اگر بالفرض قیامت آ ہی گئی اور مجھے دوبارہ زندہ ہو کر اللہ کے حضور پیش ہونا ہی پڑا تو:

         اِنَّ لِیْ عِنْدَہٗ لَلْحُسْنٰی: ’’یقینا میرے لیے اُس کے پاس بہتری ہی ہو گی۔‘‘

        اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں مجھے دولت اور عزت دی ہے، اولاد عطا کی ہے اور طرح طرح کی دوسری نعمتوں سے بھی مجھے نواز رکھا ہے تو اس کا یہی مطلب تو ہے کہ میں اس کا منظورِ نظر ہوں اور وہ مجھ پر مہربان ہے۔ چنانچہ اس زندگی کے بعد بھی اگر کوئی زندگی ہے تو میں وہاں بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کا منظورِ نظر ہی رہوں گا، وہ وہاں بھی مجھ پر اسی طرح مہربان رہے گا اور جس طرح میں یہاں اس دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہا ہوں وہاں بھی اسی طرح مزے اڑاؤں گا۔

         فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِمَا عَمِلُوْا: ’’تب ہم پوری طرح سے جتلادیں گے ان کافروں کو جو کچھ بھی اعمال انہوں نے کیے ہوں گے۔‘‘

         وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ: ’’اور انہیں ہم لازماً مزا چکھائیں گے بہت ہی گاڑھے عذاب کا۔‘‘

UP
X
<>